Book Name:Taqwa Kesay Milay?

گُنَاہوں سے دُور نہیں ہوتا ، جب دِل گُنَاہ سے دُور ہو جائے ، دِل میں گُنَاہ سے نفرت پیدا ہو جائے تو پھر نفس گُنَاہ کی خواہش کرے بھی تو دِل اس خواہش کو ٹھکرا دیتا ہے ، جب دِل میں گُنَاہ سے نفرت پیدا ہو جائے تو گُنَاہ کے اسباب بَن بھی جائیں ، پھر بھی دِل اُن اسباب سے کنارہ کر لیتا ہے۔ معلوم ہوا تقویٰ اَصْل میں دِل کی ایک کیفیت ہے مگر دِل کی یہ کیفیت بنے گی کیسے؟ اس کے لئے ایک مِثَال سمجھئے! جب کہیں سڑک ٹوٹ جاتی ہے تو آپ نے دیکھا ہو گاکہ سڑک کو دوبارہ سے بنانے کے لئے ایک تو وہاں مزدور (یعنی لیبر) لگا دی جاتی ہے اور ساتھ ہی سڑک کے دونوں جانِب ایک بورڈ لگا دیا جاتا ہے ، جس پر لکھا ہوتا ہے : سڑک زیرِ تعمیر ہے ، متبادل راستہ اختیار فرمائیے!

یہ بورڈ کیوں لگاتے ہیں؟ اس لئے کہ اگر وہاں سے گاڑیاں روٹین میں گزرتی رہیں گی تو مزدور کام نہیں کر پائیں گے اور جتنا وہ کام کریں گے ، سڑک چونکہ ابھی کچی ہو گی ، اُوْپر سے گاڑی گزرے گی تو دوبارہ ٹوٹ جائے گی ، لہٰذا وہاں پر مزدور لگانے کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی آمد ورَفْت بھی بند کر دی جاتی ہے ، یہی حال ہمارے دِل کا ہے ، ہمارا دِل گناہ کر کر کے سیاہ ہو جاتا ہے ، اب رمضان آیا ، ہم نے روزے رکھنا شروع کئے ، گویا دِل کی صفائی کے لئے ہم نے اندر کاریگر لگا دئیے ، نَفْس کی خواہش دبانے کا کاریگر ،  بھوک کا کاریگر ، پیاس کا کاریگر ، یہ سارے کاریگر ہیں جو ہم نے اپنے اندر لگا دئیے تاکہ ہمارے دِل کی صَفائی کریں ، یہ کاریگر صفائی تو کرتے ہیں لیکن اگر ہم دِل کے راستے بند نہیں کریں گے تو دِل کی صَفائی ہو نہیں پائے گی ، لہٰذا روزہ تو رکھنا ہی رکھنا ہے ، اس کے ساتھ ساتھ دِل کے راستے بھی بند کرنے ہیں تاکہ روزے کے ذریعے سے دِل کی پوری طرح صفائی ہو سکے اور