Book Name:Taqwa Kesay Milay?

سُبْحٰنَ اللہ! مکے مدینے کے سردار ، غیبوں پر خبردار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ایسی فصاحت وبلاغت کے قربان! خواب میں آکر بھی ایسی کمال نصیحت فرمائی کہ دریا کو کوزے میں بند کر دیا۔ کیا خوب کہا اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے :

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں

وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو ،  وہ بیاں ہے جس کا بیاں نہیں([1])

وضاحت : یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! زبان تو سب کو ملی ہے مگر میں آپ کے پاکیزہ کلام پر قربان! آپ کی زبان مبارک سے نکلا ہوا اَیْک اَیْک لفظ ایسا اچھا اور سچا ہے کہ کسی کی مجال ہی نہیں کہ اس میں عیب نکال سکے اور آپ کے مبارک بیان کی بھی کیا ہی بات ہے! اس کی خوبیاں بیان سے باہر ہیں۔  

 پیارے آقا ، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اس 2 لفظی نصیحت پر اگر ہم گہری نظر سے غور کریں تو پتا چلے گا کہ يہ تقویٰ حاصِل کرنے کا بہترین اور اَہَم ترین طریقہ ہے۔ دیکھئے! تقویٰ اَصْل میں دِل کی ایک کیفیت کا نام ہے۔ امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے اپنے استادِ محترم کے حوالے سے تقویٰ کی یہ تعریف لکھی : تَنْزِیْہُ الْقَلْبِ مِنَ الذَّنْبِ دِل کو گُنَاہوں سے دُور کر دینا۔ ([2])

کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ہم خوفِ خُدا کا بیان سنتے ہیں ، قبر وآخرت اور جہنّم کا ذِکْر سُنتے ہیں تو آنکھ سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں ، گناہ نہ کرنے کا پَکَّا ارادہ کر لیتے ہیں مگر چند ہی منٹ بعد پھر گُنَاہوں میں مُلَوِّث ہوتے ہیں ، اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ ہمارا دِل


 

 



[1]...حدائق بخشش ، صفحہ : 107۔

[2]...منہاج العابدین ، تیسرا باب ، نفس ، صفحہ : 158۔