Book Name:Taqwa Kesay Milay?

قرار دیا گیا ، ڈاکوؤں کے اس سردار کو یہ حدیثِ پاک معلوم تھی یا معلوم نہیں تھی ، بہر حال اُس نے اللہ پاک سے صلح کے لئے جو راہ اختیار کی وہ روزہ کی صُورت میں اختیار کی تو اللہ پاک نے اس کے روزے ہی کی برکت سے اسے توبہ کی ، عبادت و ریاضت اور مجاہدات کی توفیق عطا فرمائی۔

روزے کو عبادت کا دروازہ کیوں کہا گیا؟

یہاں ایک سُوال ذہن میں ابھرتا ہے ، وہ یہ کہ آخر روزے میں ایسی کیا خاصیت ہے کہ نبیوں کے نبی ، مکی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے عبادت کا دروازہ قرار دیا؟ 

اس سُوال کا جواب امام غزالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے “ احیاء العلوم “ میں دیا ہے ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  نے جو کچھ فرمایا ، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اَصْل میں جن وُجُوہات سے بندہ اللہ پاک سے ،  عبادت و ریاضت سے ، نیک کاموں سے دور ہوتا ہے ، ان کی اَصْل بنیاد شیطان ہے لیکن شیطان ہے باہَر کا دُشْمن ، یہ ڈائریکٹ ہم پر حملہ آور نہیں ہو سکتا ، اس لئے یہ ہمارے نَفْس کو بطور جاسوس ہمارے خلاف استعمال کرتا ہے ،  نَفْس ہمارے اندر کا دُشْمن ہے ، یہ خواہشات سجاتا ہے اور شیطان اُن خواہشات کے ذریعے سے ہم پر حملہ آور ہوتا ہے ، اس کو ایک مثال سے یُوں سمجھئے کہ جیسے کسی شخص کا ہرا بھرا ، سرسبز وشاداب لہلہاتا ہوا کھیت ہو تو اس کی ہریالی کو دیکھ کر بھیڑ بکریاں وغیرہ اس طرف آتی ہیں اور کھیت کو خراب کرتی ہیں ، کھیت کے مالِک کو بھیڑ بکریوں وغیرہ کو روکنے کی مشقت اس وقت تک اُٹھانی پڑتی ہے جب تک کھیت ہرا بھرا ، سرسبز ہوتا ہے ، اسی طرح ہمارے اندر پلنے والی نفس کی خواہشات بھی شیطان کی چراگاہیں ہیں ، جب تک یہ خواہشات موجود رہیں گی ، شیطان آتا