Book Name:Taqwa Kesay Milay?
کرتے ہوئے ، غریبوں کی مدد کرتے ہوئے گزارنے اور فیضانِ رمضان سے خوب جھولیاں بھرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
روزے کی برکت سے توبہ نصیب ہو گئی
حضرت شیخ ابو بکر شبلی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ تیسری صدی ہجری کے بلند رُتبہ بزرگ ہیں ، آپ اپنی زندگی کا ایک حیرت انگیز اور سبق آموز واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ایک مرتبہ میں قافلے کے ساتھ مُلکِ شام جا رہا تھا ، راستے میں اچانک ڈاکوؤں کی ایک جماعت نے ہمارے قافلے پر حملہ کیا اور قافلے والوں کا سازوسامان لوٹ کر اپنے سردار کے سامنے ڈھیر کیا اور اس کی جانچ پڑتال کرنے لگے ، ایک شخص کے سامان سے شکّر اور بادام کی تھیلی نکلی ، سارے ڈاکو مِل کر شَکّر اور بادام کھانے لگے مگر ان کا سردار شکر اور بادام نہیں کھا رہا تھا۔ شیخ ابو بکر شبلی رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : مجھے حیرانی ہوئی اور میں نے ڈاکوؤں کے سردار سے پوچھا : سب شکر اور بادام کھا رہے ہیں ، تم کیوں نہیں کھاتے؟ اس نے میری حیرت میں اضافہ کرتے ہوئے کہا : میرا روزہ ہے۔
بڑی حیرانی کی بات تھی ، ایک طرف بندوں کے حقوق پامال کئے جا رہے ہیں ، لوگوں کے خون پسینے کی کمائی لوٹی جا رہی ہے ، غریبوں کی آہیں ، بددُعائیں لی جا رہی ہیں اور دوسری طرف تقویٰ و پرہیز گاری کا مُظَاہَرہ کرتے ہوئے روزہ بھی رکھا ہوا ہے ، شیخ ابوبکر شبلی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : میں نے اس سے پوچھا : تم لوٹ مار بھی کرتے ہو اور روزہ بھی رکھتے ہو؟ میرے اس سُوال پر سردار بولا : اللہ پاک سے صلح کے لئے بھی تو کوئی راہ باقی رکھنی ہے۔