Book Name:Meraj K Mojzaat 27 Rajab 1442

میں ساتھ چھوڑ دیا جائے۔ عرض کیا :

اگر یَکْ سَر مُوئے بَرتَر پَرَم                      فَرَوْغِ تجلی بَسَوْزَدْ پَرَم

یا رسولَ اللہ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم ! یہاں سے ایک قدم بھی آگے بڑھا تو انوار وتجلیات سے میرے پَر جَل جائیں گے۔ میری بَس یہی انتہاء ہے۔

امیرِ اہلسنت ، حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادِری رضوی  دامت برکاتہم العالیہ  اپنے نعتیہ دِیوان “ وسائلِ بخشش “ میں اس کی منظر کشی کچھ اِس طرح کرتے ہیں!

جبریل ٹھہر کر سِدرہ پر بولے جو بڑھے ہم ایک قدم

جل جائیں گے سارے بال و پَر اب ہم تو یہیں رہ جاتے ہیں([1])

اور کسی نے یُوں اس کو نظم کیا!!!

نور نے تلووں کو سہلا کر جگایا خواب سے         یُوں ہوئی سرکار کی مِعْراجِ جسمانی شروع

پہلے تو وہ ہمرکابِ سرورِ کونین تھا                   ہو گئی جبریل کی سِدْرَہ سے حیرانی شروع

اس سے آگے سرکارِ ذی وقار ، دوجہاں کے تاجدار  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  جہاں گئے ، اس کی مکمل تفصیلات لے جانے والا رَبّ جانے یا جانے والے محبوب  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم

کسے ملے گھاٹ کا کنارہ ، کدھر سے گزرا ، کہاں اُتارا

بھر جو مثلِ نظر طرارا وہ اپنی آنکھوں سے خود چھپے تھے([2])

شعر کا مفہوم : یعنی وَحْدَت کے سمندر کا کوئی کنارہ ہی نہیں ہے ، لہٰذا کوئی کیا بتائے گا کہ مِعْراج کے دولہا ، سید الانبیا  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کہاں سے گزرے اور سُواری نے کہاں اُتارا ، اَوْر تو اَوْر آپ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ


 

 



[1]...وسائل بخشش ، صفحہ : 288۔

[2]...حدائق بخشش ، صفحہ : 235۔