Book Name:Meraj K Mojzaat 27 Rajab 1442

بیت المقدس کے متعلق سُوال پوچھنا شروع کئے ، کسی نے پوچھا : وہاں کتنے دروازے ہیں؟ کسی نے کہا : بیت المقدس کا رقبہ کتنا ہے؟ کسی نے پوچھا : بیت المقدس کا گنبد کتنا اُونچا ہے؟([1])

اللہ اکبر! کیسے فضول سُوالات ہیں ، خلیفۂ اعلیٰ حضرت عَلَّامہ ظفر الدین بہاری  رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : عام سی بات ہے ، آدمی کسی مکان میں جاتا ہے تو اس کی حیثیت مختلف ہوتی ہے ، یہ انجینئر کا حال ہے کہ وہ جب کسی مکان میں جائے تو اس کی نگاہ ان باتوں کی طرف ہوتی ہے ، وہ سوچتا ہے کہ عِمَارت کتنی اُونچی ہے؟ دیواریں کتنی موٹی ہیں؟ عمارت کا رقبہ کتنا ہے؟ کتنے دروازے ہیں؟ جو شخص کسی اور مقصد کے لئے جاتا ہے ، اس کی توجہ ہر گز ان چیزوں کی طرف نہیں ہوتی ، نیز اِس رات سرکارِ ذی وقار ، مدنی تاجدار  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  پر خاص تجلئ الٰہی تھی ، اس خاص کیفیت میں بلکہ عام حالات میں بھی بیت المقدس کے دروازے گنتی کرنا ، رقبے پر غور کرنا ، گنبد کی بلندی کو سوچنا آپ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کی شانِ نبوت کے خِلاف تھا ، چنانچہ حدیث شریف میں ہے : جب ان لوگوں نے بیت المقدس کے بارے میں ایسے فضول سوالات پوچھے تو غیبوں پر خبردار ، سرکارِ عالی وقار  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  کو سخت پریشانی ہوئی ، اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت جبریل امین  عَلَیْہِ السَّلام  بیت المقدس کو ساتھ لئے آپ کے سامنے حاضِر ہوئے ، اب کیا تھا ، کفار جو کچھ پوچھتے گئے ، نبئ اکرم ، نورِ  مجسم  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  ایک ایک چیز کے مُتَعَلِّق بتاتے گئے ، جب آپ  صَلّی اللہُ عَلَیْہ وآلِہ وسَلَّم  نے عِمَارت کے نشانات ، مسجد کا نقشہ وغیرہ سب کچھ بتا دیا تو یہ سُن کر لوگ پُکار اُٹھے : جہاں تک نشانیوں کا تعلق ہے ، خُدا کی قسم! وہ بالکل درست ہیں۔  ([2])


 

 



[1]...تاریخ خمیس ، رکن ثانی ، جلد : 1 ، صفحہ : 582۔

[2]...تحفۂ معراج النبی ، صفحہ : 334-335۔