Book Name:Sab Se Barah Kar Sakhi

(4)... سخی اللہ پاک سے قریب ہے ، جنَّت سے قریب ہے ، لوگوں سے قریب ہے ، آگ سے دور ہے اور کنجوساللہ پاک سے دور ہے ، جنَّت سے دور ہے ، لوگوں سے دُور ہے ، آگ کے قریب ہے اور جاہل سخی ، اللہ پاک کے نزدیک بخیل عالِم سے بہتر ہے ۔ ([1])

(5)... اے انسان! اگر تم بچا مال خرچ کردو توتمہارے لئے اچھا ہے اور اگر اُسے روک رکھو تو تمہارے لئے بُرا ہے اور بَقَدْرِ ضرورت اپنے پاس رکھ لو تو تم پر مَلامت نہیں اور دینے میں اپنے عیال سے اِبْتدا کرو اور اُوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔ ([2])

    اس حدیث کی شرح میں مفسرِ قرآن ، مُفْتی احمدیارخان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ   عَلَیْہفرماتے ہیں : یعنی اپنی ضَروریات سے بچا ہوا مال خَیْرات کردینا خُودتیرے لئے ہی مُفید ہے کہ اس سے تیرا کوئی کام نہ رُکے اور تجھے دُنیا وآخرت میں عوض(یعنی بدلہ) مل جائے گا اور اسے روکے رکھنا ، خُود تیرے لئے ہی بُرا ہے ، کیونکہ وہ چیز سَڑ گل یا اور طرح سے ضائع ہوجائے گی اور تُو ثواب سے محروم ہوجائیگا ، اسی لئے حکم ہے کہ نیا کپڑا پاؤ تو پُرانا بیکار کپڑا خیرات کردو ، نَیا جُوتا  رب العالمین دے تو پُرانا جوتا جو تمہاری ضرورت سے بچا ہے ، کسی فقیر کو دے دو کہ تمہارے گھر کا کُوڑا نکل جائے گا اور اُس کا بھلا ہوجائے گا۔ مزیدفرماتے ہیں : اس میں دو حکم بیان ہوگئے ، ایک یہ کہ جو مال اس وقت تو زائد ہے ، کل ضرورت پیش آئے گی ، اسے جمع رکھ لو ، آج نفلی صَدَقہ دے کر کل خُود بھیک نہ مانگو ، دُوسرے یہ کہ خیرات پہلے اپنے عزیز غریبوں کو دو ، پھر اَجنبیوں کو کیونکہ


 

 



[1]    سنن الترمذی ، کتاب البروالصلة ، باب ماجاء فی السخاء ، ۳ / ۳۸۷ ، حدیث : ۱۹۶۸ بتغیرقلیل

[2]     صحیح مسلم : کتاب الزکاۃ ، الحدیث : ۱۰۳۶ ، ص۵۱۶