Book Name:Walidain e Mustafa

حضرت سیِّدُنا سفیان ثوری رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   کی عمر جب پندرہ برس ہوئی تو اپنی ماں سے عرض کی : “ اے امی جان ! مجھے  اللہ پاک کی راہ میں وقف فرما دیجئے “ والدہ کہنے لگیں : “ اے میرے بیٹے! بادشاہوں کو وہ چیز  تحفے میں دی جاتی ہے ، جو ان کے شایانِ شان ہو ، تجھ میں ایسی کوئی خوبی نہیں کہ اللہ پاک کی شان کے مطابق ہو۔ “ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   کو حَیا  آئی آپ نے گھر میں ایک کمرہ اپنے لیے خاص کرلیا اور اس میں پانچ سال  تک عبادت کرتے رہے۔ ایک دن جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   کی والدۂ محترمہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ  کے پاس آئیں ، دیکھا کہ  ان کا بیٹا  عبادت میں مصروف ہے  اوراس پر سعادت کے آثار نمایاں ہیں ، ماں کو یقین ہوگیا کہ اب میرا بیٹا ایسا ہوچکا ہے کہ جسے میں اپنے رب کی بارگاہ میں پیش کرسکتی ہوں تونیک والدہ نے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   کی آنکھوں کے درمیان بوسہ دیا اور فرمایا : “ اے میرے بیٹے ! اب میں تجھے اپنے ربِ کریم کی راہ میں وقف کرتی ہوں۔ “ والدہ کی اجازت ملنا تھی  کہ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   راہِ خدا میں سفر کرنا شروع کردیئے ، دس سال سفر میں رہے اور عبادت سے لذّت  حاصِل  کرتے رہے۔ ایک دن آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   کو اپنی والدۂ محترمہ کی زیارت کا شوق ہوا تو گھر کی طرف چل پڑے۔ رات کے وقت جب آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ   گھر پہنچے تو دروازہ کھٹکھٹایاتو پردے کے پیچھے سے آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہ  کی والدۂ محترمہ  کی آواز آتی ہے : “ اے سفیان! جو اللہ  پاک  کے نام پر کوئی چیز وقف کردیتا ہے وہ واپس نہیں لیتا۔ میں نے تجھے اللہ  پاک کے نام پر پیش کردیا ہے ، اب میں تجھے صرف اسی کے سامنے دیکھنا چاہتی ہوں۔ “ ([1])


 

 



[1]   حکایتیں اور نصیحتیں ، ص۲۶۴۔