Book Name:Faizan e Safar Ul Muzaffar
ہوگئی جو کسی انسان ، جانور ، کسی دن یا مہینے کو صرف اپنے وَہم(یعنی بے بنیاد خیالات) کی بنیاد پر منحوس خیال کرتے ہیں حالانکہ شریعت میں اِس کی کوئی حقیقت نہیں۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بدشگونی اور اچھے شگون میں بنیادی فرق یہ ہے کہ * بدشگونی لینا شرعاً ممنوع اور اچھا شگون لینا مستحب ہے۔ * اچھا شگون لینا ہمارے مَدَنی سرکار صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا طریقہ ہے جبکہ بدشگونی غیر مسلموں کاطریقہ ہے۔ * اچھا شگون لینےسے اللہ کریم کے رحم و کرم سے اچھائی اور بھلائی کی اُمید ہوتی ہے جبکہ بدشگونی سے نااُمیدی پیدا ہوتی ہے۔ * نیک فال سے دل کو اطمینان اور خوشی حاصل ہوتی ہے جو ہرکام کی کوشش اور اُسے مکمل کرنے کے لیے ضروری ہے جبکہ بدشگونی سے بِلاوجہ رَنج و شک پیدا ہوتا ہے۔ * نیک فالی انسانکو کامیابی ، حرکت اور ترقی کی طرف لے جاتی ہے جبکہ بدشگونی سے مایوسی اورسُستی پیدا ہوتی ہے جوذِلّت و رُسوائی کی طرف لے جاتی ہے۔
حکیمُ الْاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نیک فال لینا سُنّت ہے ، اِس میں اللہ پاک سے اُمیدہےاوربدفالی لینا ممنوع کہ اِس میں ربِّ(کریم)سےنا اُمّیدی ہے۔ اُمّیداچھی ہے ، نااُمّیدی بُری ، ہمیشہ ربّ(کریم) سے اُمّید رکھو۔ (مرآۃ المناجیح ، ۶ / ۲۵۵)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!یادرکھئے!جو شخص وہم کی آفت میں مُبْتَلا ہوجاتا ہے تو اُسے ہر چیز ہی منحوس محسوس ہونے لگتی ہے ، حتّٰی کہ وہمی شخص کم عقل لوگوں کی باتوں میں آکر غلط فیصلے کرکے نہ صرف خود آزمائش میں مُبْتَلا ہوجاتا ہے بلکہ دیگر لوگوں کیلئے بھی وبالِ جان بن کر رہ