Faizan e Safar Ul Muzaffar

Book Name:Faizan e Safar Ul Muzaffar

فُلاں شخص نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ اگرچہ میرے آپ سے اِختلافات ہیں لیکن اخلاقی حُقوق کی ادائیگی ضروری ہے ، میں نے آپ کے حالات سُنے ہیں اس لئے مجھ پر لازم ہے کہ آپ کی ضروریات پوری کروں۔ اگر آپ ایک یا 2 ماہ تک ہمارے یہاں ٹھہریں تو آپ کی ضروریات پوری کی جائیں گی ، اگر آپ یہاں سے جانا چاہتے ہیں تویہ30 دینار ہیں ، اِنہیں اپنی ضروریات پر خرچ کرلیجئے اور تشریف لے جائیے ہم آپ کی مجبوری سمجھتے ہیں۔

اُس شخص کا بیان ہے : اِس سے پہلے میں کبھی30 دینار کا مالک نہیں ہوا تھا اور مجھ پر یہ بات بھی ظاہر ہوگئی کہ بدشُگونی کی کوئی حقیقت نہیں۔ (روح البیان ، پ۲ ، البقرۃ ، تحت الایۃ۱۸۹ ، ۱ / ۳۰۴ملخصاً)

حکیمُ الْاُمَّت حضرت  مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ  لکھتے ہیں : اسلام میں  نیک فال لینا جائز ہے ، بدفالی ، بدشگونی لینا حرام ہے ۔ (تفسیر نعیمی ، ۹ / ۱۱۹)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                            صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

پیارے پیارے اسلامی بھائیو!بیان کردہ حکایت سے پتہ چلا!بدشُگونی کا حقیقت سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ وہ شخص دورانِ سفر  اپنے ذہن کے مطابق بد شگونیوں کا شکار ہوااور یہ سوچنے لگا کہ اب  سفر ختم کر کے واپس جانے میں ہی عافیت ہے۔ کیونکہ اُس کے خیال کے مطابق  اِتنی ساری بد فالیوں(یعنی بدشگونیوں) کے بعد اُس کی حاجت کا پورا ہو نا ممکن نہ تھا ، چونکہ سفر کرنا بھی ضروری تھالہٰذا اُس نے سفر ختم نہ کیا ۔ جب وہ وہاں پہنچا تو اُسے اِتنی رقم مل گئی جو اِس سے پہلے اُس نے کبھی دیکھی  بھی نہ تھی اور نہ ہی اُسے اِس کی تَوَقُّع تھی۔ اپنی حاجت کے اِس طرح پورا ہونے کے بعداُس نے یہ ذہن بنا لیا کہ بدشُگونی کی کوئی  حقیقت نہیں ہے۔ اِس حکایت سے اُن لوگوں کے وہم کی مکمل کاٹ