Book Name:Seerate Imam Ahmad Bin Hamnbal
کم تر سمجھنے کے بجائے جان پہچان نہ ہونے کے باوجود بھی انہیں غیر معمولی حیثیت دیتے تھے۔٭ آپ دور دراز علاقوں سے آئے ہوئے مسافروں سے آتے ہی عجیب وغریب سُوالات کرنےکے بجائے ان کی خیر خیریت پوچھتے تھے۔٭ آپ کا شمار ان عظیم اولیائے کرام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن میں ہوتا ہے جن کی مبارک زندگی میں ہی ہر طرف آپ کی شہرت و عظمت کے ڈنکے بجتے تھے۔٭ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے زمانے کے لوگ علمائے کرام کی صحیح معنیٰ میں قدر کرنے والے اور اولیائے کرام رَحْمَۃُ اللّٰہ ِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن سے سچی عقیدت و مَحَبَّت رکھنے والے تھے۔٭آپ سے مَحَبَّت رکھنے والے آپ کے شہرِ مبارک سے بھی مَحَبَّت کرتے تھے۔٭ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے دورِ مبارک میں شدید گرمی اور جُھلسانے والی دُھوپ میں بھی لوگ دور دراز کے علاقوں سے صرف و صرف آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے دیدار کے جام پینے کے لئے آپ کی مقدس بارگاہ میں حاضری دیا کرتےتھے۔٭ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کا سینَۂ مبارک اُمّتِ محبوب کی خیرخواہی کے جذبے سے سرشار تھا۔٭ہمیشہ دوسروں کا فائدہ چاہتے تھے۔٭ غریبوں کی مالی مدد نہ کرسکنے کے سبب غمگین ہوجاتے تھے۔٭راہِ خدا میں خرچ کرنے کے معاملے میں کبھی بھی کنجوسی کا مظاہرہ نہی کرتے تھے۔٭ آپ کی ذات میں تَوَکُّل و قناعت جیسی خوبیاں رَچ بس چکی تھیں۔٭ آپ کے زمانے والے بھی انہی عمدہ خوبیوں سے مالا مال تھے۔٭ اپنے حصے کی روٹیاں بھی غریبوں پر صدقہ کردیا کرتے تھے۔ ٭ آپ کی بارگاہ میں جب کوئی حاجت مند آتا تو کبھی خالی ہاتھ نہ جاتا۔٭غریبوں اور محتاجوں کے دلوں میں خوشی داخل فرماتے اور ان کی دِلجوئی بھی کیا کرتے تھے۔٭حاجت مندوں کو اتنا عطا کردیتے تھے کہ پھر اپنے شہر تک پہنچنے میں انہیں بے فکری ہوجاتی تھی۔٭ آپ کی ذات بلکہ آپ کی عطا کردہ چیزوں کو لوگ اپنے لئے بَرَکت کا ذریعہ سمجھتے