Book Name:Seerate Imam Ahmad Bin Hamnbal
و دینار(یعنی دنیاوی مال و دولت)نہیں ورنہ ضرور تمہیں دیتا،صرف یہ چار(4)روٹیاں میں نے کھانے کے لئے رکھی تھیں،تم یہ قبول کرلو۔مسافر نے کہا :حضور! آپ کے دِیدار کا شربت پی لیا اب مجھے درہم و دینار(دنیاوی مال و دولت) کی فکر نہیں ، باقی رہاروٹیوں کا معاملہ تو اگر میرا ان روٹیوں کو لے لینا آپ کی خوشی کا باعث ہے تو بَرَکت حاصل کرنے کی نِیَّت سےلے لیتا ہوں۔
میں نے کہا: اگر تم یہ روٹیاں قبول کر لو گے تو مجھے دلی خوشی ہوگی۔مسافر نے وہ روٹیاں لیں اور کہا : حضور! مجھے اُمید ہے کہ آپ کی دی ہوئی روٹیاں مجھے اپنے شہر تک کافی ہیں۔اللہ کریم آپ کی حفاظت فرمائے۔پھر وہ میرے ہاتھوں کو چوم کر واپسی کی اجازت طلب کرنے لگا۔میں نے اسے روانہ کیا اور کہا:جاؤ! میں نے تمہیں اللہ کریم کے حوالے کیا ۔ پھر وہ رُخصت ہوگیا ،میں باہر کھڑا اسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ میری نظروں سے غائب ہوگیا ۔حضرت صالح رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میرے والد اکثر اس مسافر کاذکر فرمایا کرتے تھے۔(عیون الحکایات،ص۳۱۴)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد
حضرت امام احمد بن حنبلرَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے اوصاف
اے عاشقانِ اولیا!بیان کردہ حکایت میں کروڑوں حَنبلیوں کے عظیم رہنما حضرت امام احمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کے کئی دلنشین اَوصاف بیان ہوئے ہیں،مثلاً٭ آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن کی اولاد بلکہ اولاد کی اولاد بھی آپ رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ کی بےحد تعظیم و توقیر کرتی تھی۔ ٭ اپنی اولاد سے بہت مَحَبَّت فرماتے تھے۔٭ اپنی اولاد کو ترغیب کے لئے اچھی اچھی باتیں بتاتے تھے۔٭ بے سہارا لوگوں کا سہارا تھے۔٭ آپ زمانے کے بہت بڑے ولی اور مشہور مُحَدِّث ہونے کے باوجود غریبوں کو