Book Name:Faizan-e-Ashabe Suffah
جو تم اس کی تندرستی کی حالت میں لکھا کرتے تھے۔ “ (التر غیب والتر ھیب ، کتاب الجنائز ، باب التر غیب فی الصبر ، ۴ / ۱۴۸ ، رقم : ۵۳)
صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
صُفّہ والوں کا عِلْم دِین سیکھنا سکھانا
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہم صُفّہ والوں کے بارے میں سُن رہی تھیں ، یہ لوگ دِین کی خدمت کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ یہ لوگ علمِ دِین حاصل کرنے میں اپنی مثال آپ تھے۔ کئی روایات میں ان کے عِلْمِ دین سیکھنے اورسکھانے کا تذکرہ ملتا ہے ، چنانچہ
حضرت عُثمان بن ابی عاص رَضِیَ اللہُ عَنْہُ جو صُفّہ والوں میں سے تھے ، ان کا معمول تھا کہ جب لوگ دوپہر کو چلے جاتے تو یہ رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوکر دِین کے متعلق سُوالا ت(Questions)کرتے اور قرآنِ کریم سیکھتے ، اس طرح انہوں نے دِین کی سمجھ بُوجھ اور بہت سا عِلْم بھی حاصل کرلیا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَآرام فرما رہے ہوتے تو یہ حضرت ابُوبکر صدّیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کے پاس چلے جاتے۔ نبیِّ اکرم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان سے بڑی محبت فرماتے تھے۔ (فيضانِ صديق اكبر ، ص ۱۴۸ملخصاً)
حضرت عبدُالله بن سعيد بن عاص کا نام زمانَۂ جاہِلِیّت میں حَکَم تھا ، رسولِ خدا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ان کا نام عبدُالله رکھا ، یہ بھی صُفّہ والوں میں سے تھے۔ زمانَۂ جاہِلِیّت میں یہ کاتب(لکھائی کا کام کرنے والے)تھے(اسلام لانے کے بعد)نبیِّ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے انہیں حکم فرمایا کہ مدینہ میں لوگوں کو لکھنا سکھائیں۔ (اسد الغابۃ ، عبد اللہ بن سعید بن العاصی ، ۳ / ۲۶۶ملخصا)