Book Name:Faizan-e-Safar-ul-Muzaffar

بَدشُگُونی لینا میرا وہم تھا

ایک شخص کا بیان ہے:ایک مرتبہ میں اتنامحتاج ہوگیا کہ بھوک مِٹانے کے لئے مَٹی کھانی پڑی مگر پھر بھی بھوک ستاتی رہی۔میں نے سوچا: کاش ! کوئی ایسا شخص مل جائے جو مجھے کھانا کھلا دے ، چنانچہ میں ایسےشخص کی تلاش میں اِیران کے شہر اَہواز کی طرف روانہ ہوا حالانکہ وہاں میرا کوئی جاننے والا نہ تھا۔ جب میں دریا کے کنارے پہنچا تو وہاں کوئی کشتی موجود نہیں تھی ، میں نے اسے بَدفالی جانا۔ پھر مجھے ایک کشتی نظر آئی مگر اس میں سُوراخ تھا ،یہ دوسری بَدفالی ہوئی۔میں نے کشتی کے مَلّاح کا نام پوچھا تو اس نے ’’دیوزادہ‘‘بتایا(جسے عربی میں شیطان کہا جاتا ہے )یہ تیسری بَدفالی تھی۔بہرحال میں اس کشتی پر سوار ہوگیا،جب دریا کے دوسرے کنارے پر پہنچا تو میں نے آواز لگائی : اے بوجھ اُٹھانے والے مزدور! میرا سامان لے چلو،اس وَقْت میرے پاس ایک پُرانا لحاف اور کچھ ضَروری سامان تھا۔جس مزدُورنے مجھے جواب دیا وہ ایک آنکھ والا(یعنی کانا)تھا،میں نے کہا:یہ چوتھی بَدفالی ہے۔میرے دل میں آیا  کہ یہاں سے واپس لوٹ جانے میں ہی عافیت ہے لیکن پھر اپنی حاجت کو یاد کرکے واپسی کا اِرادہ چھوڑدیا۔ جب میں مُسافر خانے پہنچا اور ابھی یہ سوچ رہا تھا کہ کیا کروں کہ اتنے میں کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔میں نے پوچھا: کون؟تو جواب ملا:میں آپ سے ہی ملنا چاہتا ہوں۔میں نے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ میں کون ہوں؟اس نے کہا:ہاں۔میں نے دل میں کہا:’’یا تو یہ دشمن ہے یا پھر بادشاہ کا نمائندہ!‘‘میں نے کچھ دیر سوچنے کے بعد دروازہ کھول دیا۔اس شخص نے کہا :مجھے فلاں شخص نے آپ کے پاس بھیجا ہے اور یہ پیغام دیا ہے کہ اگرچہ میرے آپ سے اِختلافات ہیں لیکن اَخْلاقی حُقُوق کی اَدائیگی ضَروری ہے، میں نے آپ کے حالات سُنے ہیں اس لئے مجھ پر لازِم ہے کہ آپ کی ضروریات پوری کروں۔اگر آپ ایک یا دو ماہ تک ہمارے یہاں ٹھہریں تو