Book Name:Faizan-e-Safar-ul-Muzaffar

ہے بلکہ دوسروں کیلئے بھی وبالِ جان بن کر رہ جاتی ہے ۔ کسی مسلمان کےمَنْحوس ہونے کا خیال نفرت کے وبال  میں ڈال سکتا ہے۔ مَنحْوس ہونے کا وہم شیطان کا وہ  ہتھیار ہے  جو مسلمانوں کو آپس میں لڑائی ، جھگڑے کرواکر چین  و سکون کی بربادی کا سبب بن جاتا ہے۔یہ بات  اچھی  طرح ذِہْن نشین کرلیجئے  کہ کسی شخص،جگہ، چیز یا وَقْت کومنحوس جاننے کا اسلام میں  کوئی تصوُّر(Consept)نہیں یہ صرف وہمی خیالات ہوتے ہیں، جیسا کہ

اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سُنَّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے سُوال کیا گیا:ایک شخص کے مُتعلِّق مشہور ہے کہ اگر صُبْح کو اس کی منحوس صُورت دیکھ لی جائے یا کہیں کام کو جاتے ہوئے یہ سامنے آجائے تو ضَرورکچھ نہ کچھ دِقّت(مشکل) اور پریشانی اُٹھانی پڑے گی اور چاہے کیسا ہی یقینی طور پر کام ہوجانے کا وُثُوق (یعنی اِعتماد اور بھروسا)ہو لیکن ان کا خیال ہے کہ کچھ نہ کچھ ضَرور رُکاوٹ اور پریشانی ہوگی۔ چنانچہ اُن لوگوں کو ان کے خیال کے مُناسب ہربار تجربہ ہوتا رہتا ہے اور وہ لوگ برابر اِس اَمر(یعنی بات) کا خیال رکھتے ہیں کہ اگر کہیں جاتے ہوئے اس سے سامنا ہوجائے تو اپنے مکان پر واپس آجاتے ہیں اور تھوڑی دیر بعد یہ معلوم کرکے کہ وہ منحوس سامنے تو نہیں ہے !اپنے کام کے لئے جاتے ہیں۔اب سُوال یہ ہے کہ ان لوگوں کا یہ عقیدہ اور طرزِ عمل کیسا ہے؟ کوئی قباحتِ شرعیہ(شرعی طور پر بُرا) تو نہیں؟اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ نے جواب دیا:شرعِ مُطَہّر(پاک شریعت)میں اس کی کچھ اَصل نہیں، لوگوں کا وَہْم سامنے آتاہے۔شریعت میں حکم ہے:”اِذَاتَطَیَّرْتُمْ فَامْضُوْا یعنی جب کوئی شُگُونِ بَد (بُراشگون)،گمان میں آئے تو اس پر عمل نہ کرو۔ “مسلمانوں کو ایسی جگہ چاہیے کہ’’اَللّٰہُمَّ لَاطَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ،وَلَاخَیْرَ اِلَّاخَیْرُکَ،وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ‘‘(یعنی اے اﷲ پاک!نہیں ہے کوئی بُرائی مگر تیری طرف سے اور نہیں ہےکوئی بھلائی مگر تیری طرف سے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں)پڑھ لے اور اپنے رَبّ(کریم)پر بھروسا کرکے اپنے کام کو چلا جائے ، ہر گز نہ رُکے