Book Name:Faizan-e-Safar-ul-Muzaffar

اس میں میرا کیانقصان بلکہ مجھے فائدہ ہی ہے کہ میرا دشمن میرے قابو میں کردیاگیا ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اللہ کریم اُسے میرا خادم بنائے رکھے۔ اس سے زیادہ اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ میرا سب سے بڑا دشمن خادم بن کر میری خدمت کرے اور میں اس کی طرف نظر نہ رکھوں بلکہ یہ سمجھوں کہ میرا ربِّ کریم مجھے دشمن کے ذریعے رِزق عطا فرما رہا ہے۔ اور واقعی تمام جہانوں کو وہی خالقِ کائنات رِزق عطا فرماتا ہے جو میرا معبودہے۔نوجوان کی یہ بات سُن کر لوگ خاموش ہوگئے اور سمجھ گئے کہ اس کو واقعی غیب سے رِزق دیا جاتا ہے۔  (عیون الحکایات،۲/۱۰۵)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمّد

پیاری  پیاری اسلامی  بہنو!ہمارا معاشرہ دن بہ دن بُرائیوں کی گہری کھائی میں گرتا چلا جا رہا ہے،بدشگونی کو ہی لے لیجئے کہ جس نے معاشرے کے تقریباً ہر طبقے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ بظاہر عقلمند نظر آنے والے لوگوں کے دامن کو بھی اسی منحوس بدشگونی نے داغ دار کرکے رکھا ہوا ہے۔اب تو یہ ایک عالَمی بیماری بن چکی ہے ،مختلف ممالک میں  رہنے والے مختلف لوگ مختلف چیزوں  سے ایسی ایسی بَدشگونیا ں  لیتے ہیں  کہ انسان سُن کر حیران رہ جاتا ہے،چنانچہ

بَدشگونی کی صورتیں

مکتبۃُ المدینہ کی کتاب”بَدْشُگُوْنی“کے صفحہ نمبر16 پر لکھا ہے: ٭(لوگ)کبھی اندھے، لنگڑے،ایک آنکھ والے اور معذور لوگوں  سے تو کبھی کسی خاص پرندے یا جانور کو دیکھ کر یا اس کی آواز کو سُن کر بَدشگونی کا شکا ر ہوجاتے ہیں،٭کبھی کسی وَقْت یا دن یا مہینے سے بَدفالی لیتے ہیں،٭کوئی کام کرنے کا اِرادہ کیا اور کسی نے طریقہ کار میں  نقْصان کی نشاندہی کردی یا اس کام سے رُک جانے کا کہا تو اس سے