Book Name:Bimari Kay Faiedy

کریم کی طرف سے)ہوتا ہے تو شکایت کیسی !۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،۳/۹۴)

اگر ہم اللہ والوں کی سیرت کا مطالعہ کریں تو یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کہ یہ حضرات دُشوار ترین حالات میں بھی صابر و شاکر رہتے ہیں۔حتّٰی کہ شدید بیماری میں بھی ان کے لبوں پر کبھی ناشکری کے الفاظ نہیں سُنے جاتے اورنہ ہی یہ حضرات اپنی بیماریوں کا رونا روتے ہیں،آئیے! ترغیب کے لئے دو مختصر واقعات سنتے ہیں،چنانچہ

بخار کا تذکرہ زبان پر نہیں لائے

حَنْبَلِیوں کے عظیم پیشوا حضرت سیِّدُنا اِمام اَحمد بن حنبل رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ سے کسی نے پوچھا : اے ابو عبدُاللہ ! آپ کیسے ہیں ؟ فرمایا : خیر و عافیت سے ہوں۔ کہنے لگا : سُنا ہے کل رات آپ کو بخار تھا ؟ فرمایا : جب تمہیں کہہ چکا ہوں کہ خیر و عافیت سے ہوں تو کافی ہے،جو بات کہنا نہیں چاہتا وہ مت پوچھو ۔

(منہاج القاصدین،کتاب الصبر والشکر،ص۳۲۳)

شکایت کیسی؟

خلیفۂ اعلیٰ حضرتمفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہکا بیان ہے: ایک مرتبہ اعلیٰ حضرت(رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ)بیمارتھے،میں عیادت کو گیا،حسبِ محاورہ پوچھا:حضور! اب شکایت کا کیا حال ہے؟ فرمایا: شکایت کس سے ہو ؟اللہ(پاک)سے نہ تو شکایت پہلے تھی نہ اب ہے،بندہ کو خدا سے کیسی شکایت! (صَدْرُالشَّریعہ رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں:)میں نے زندگی بھر کے لئے اس محاورے سے توبہ کر لی ۔(فتاویٰ امجدیہ ،۲/۳۸۸)

زَباں پر شِکوۂ رنج و اَلَم لایا نہیں کرتے                                    نبی کے نام لیوا غم سے گھبرایا نہیں کرتے