Book Name:Bimari Kay Faiedy

دیا ہے“۔”بیماریوں کے سبب تو میں زندگی کی حقیقی خوشیوں کو ترس گیا ہوں۔“وغیرہ وغیرہ۔

یادرکھئے!بیماری کی حالت میں صبر کرنے کے بجائے لوگوں کو اپنے دُکھڑے سنانے،بیماریوں کا رونا رونے اور بے صبری کا مظاہرہ کرنے سے مرض ٹھیک ہونے سے تو رہا، اُلٹا اس سے بیماری کی برکتوں سے محرومی گلے پڑسکتی ہے،جیسا کہ

فرشتوں کی دعا سے محروم بیمار

حدیثِ پاک میں ہے:جب کوئی شخص بیمار ہوتاہے تو اللہ پاک دو فرشتوں کوحکم فرماتا ہے: دیکھو ! یہ شخص عیادت کرنے والوں سے کیا کہتاہے؟اگر وہ اللہ پاک کا شکر بجالائے اور اچھی بات کہے تو دونوں فرشتے اسے دعا دیتے ہیں اور اگر شکوہ کرے اور بیماری کو بُراکہے تو دونوں کہتے ہیں:تُواسی حال میں رہ۔(موطا امام مالک،کتاب العین،باب ما جاء فی اجر المریض،۲/۴۲۹،حدیث:۱۷۹۸،بتغیرقلیل۔موسوعة لابن ابی الدنیا، کتاب المرض والکفارات،۴/ ۲۳۸،حدیث:۴۷،بتغیرقلیل)

شکوہ عبادت کی لذّت کو ختم کردیتا ہے

مشہور بزرگ حضرت سَیِّدُنا شَقِیق بَلْخِی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں : جس نے اپنی مصیبت کاکسی سے شکوہ کیا اسے کبھی عبادت کی لذّت نصیب نہیں ہوگی ۔(منہاج القاصدین،کتاب الصبر والشکر،ص ۳۲۳)

بخار کی شکایت،درد کی شکایت؟

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلِسنّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ فرماتے ہیں :عوام و خواص کے یہ بھی زبانِ زد(مشہور و معروف)ہے کہ بخار کی شکایت ہے ،دردِ سر کی شکایت ہے، زکام کی شکایت ہے ،وغیرہ وغیرہ ۔یہ نہ(کہنا )چاہیے،اس لیے کہ جُملہ(تمام)اَمراض کا ظہور(آنا)مِنْ جانِبِ اللہ(اللہ