Book Name:Bimari Kay Faiedy

ہے :اگر میں نے اِس بندے کو اس بیماری میں موت دے دی تو اسے جنّت میں داخل کروں گا اور اگر صحّت عطا کی تو اسے پہلے سے بھی بہتر گوشت اور خون دوں گا اور اس کے گناہ کومُعاف کردوں گا۔ (موطّا امام مالک،۲/ ۴۲۹،حدیث:۱۷۹۸)

(6)ارشاد فرمایا:جب بندہ بیمار یا مسافر ہوتا ہے تو اس کے وہی عمل لکھے جاتے ہیں جو وہ تندرسی اور گھر میں کرتا تھا ۔(بخاری،کتاب الجہاد،باب یکتب للمسافر…الخ،۲/۳۰۸،حدیث:۲۹۹۶)

بیان کردہ آخری حدیثِ پاک کے تحت حکیمُ الاُمّت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ لکھتے ہیں:یعنی اگر بیماری یا سفر کی وجہ سے وہ تہجد وغیرہ نوافل نہ پڑھ سکے یا جماعت میں حاضر نہ ہوسکے تو اس کو ان کا ثواب مل جائے گا بشرطیکہ تندرستی میں ان چیزوں کاپابند ہو۔حدیث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بیماری یا سفرمیں فرائض معاف ہوجاتے ہیں ،وہ تو ادا کرنے ہی پڑیں گے اور اگر وہ رہ گئے ہوں تو ان کی قضاء واجب ہوگی۔(مرآۃ المناجیح،۱/۴۱۳)

سُبْحٰنَ اللہ!بیان کردہ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ٭بیماری مغفرت کا سبب ہے،٭ بیماری گناہوں سے پاک کرنے کا ذریعہ ہے،٭بیماری کے سبب گناہ جھڑ جاتے ہیں،٭بیماری میں مبتلا مسلمان کو  اللہ پاک اپنا محبوب بنالیتا ہے،٭بیماری کی حالت میں حمدِ الٰہی کرنے والا اگر اسی بیماری میں انتقال کرجائے تو جنت کا حق دار قرار پاتا ہے،٭بیماری کی حالت میں حمدِ الٰہی کرنے والا اگر صحت یاب ہوجائے تو پہلے سے بہتر گوشت اور خون ملنے کی خوشخبری ہےاور٭بیماری کی حالت میں بندے کے وہی اعمال لکھ دئیے جاتے ہیں جو وہ تندرستی اور گھر میں کیا کرتا تھا۔مگر افسوس! بعض لوگ بیماریوں کے فضائل و برکات کو پیشِ نظر رکھنے کے بجائے بیماریوں کو بُرا بھلا کہنے اور شکوے شکایات کرنے لگتے  ہیں،مثلاً”یہ بخار(Fever) بھی بڑی منحوس بیماری ہے،یہ دردِ سر بھی کتنا بُرا مرض ہے کہ اس نے تو