Book Name:Naikiyon Ki Hirs Kaisy Paida Ki Jay

لیتے  ہیں وہ انہی خواہشات میں مُبْتَلا  ہو کر اپنی زندگی کے قیمتی لمحاتاللہپاک  کی نافرمانی  اور گناہوں  میں  برباد کرتے چلے جاتے ہیں اور ان کی خواہشات کا پیالہ کبھی بھی نہیں  بھرتا ، جیساکہ   

خواہشات کا پیالہ

       ایک بادشاہ بڑی شان وشوکت والاتھا۔اُسےاپنی عظیمُ الشّان حکومت،سونا اُگلتی زمینوں،سونے اور جواہرات کےخزانوں پر بڑا ناز تھا۔سالوں کی محنت سے اُس نے اپنے اِقتدار کو اِس قدر مضبوط کر لیا تھا کہ اب اُسے کسی دشمن کاخطرہ نہیں تھا۔ایک روز وہ اپنے دارُالحکومت میں دَورے کے لیے نکلا ۔وزیر اور کچھ درباریوں کے علاوہ سیکورٹی گارڈزبھی ساتھ تھے۔بادشاہ کو شہر کا چکر لگانا بڑا پسندتھا۔ شان و شوکت کےمظاہرے کےساتھ ساتھ کچھ غریبوں کی امداد کرنے کاموقع بھی مل جاتا۔واپسی پرمحل کےقریب اُسےایک فقیر نظر آیا جو پُرانے کپڑے پہنے ایک طرف بڑی بے پروائی سے بیٹھا تھا۔بادشاہ نے نَرم لہجے میں پوچھا:اپنی کوئی ضرورت بتاؤ،تاکہ میں اسے پورا کرسکوں۔فقیر کی ہنسی نکل گئی۔بادشاہ نےذراسختی سےپوچھا:اس میں ہنسنےوالی کیابات ہے؟اپنی خواہش بتاؤ،میں تمہیں ابھی مالا مال کردوں گا۔فقیرنےکہا:بادشاہ سلامت!پیشکش تو آپ ایسے کررہے ہیں جیسےمیری ہر خواہش پوری کرسکتےہوں؟اب بادشاہ نےناراضی سےکہا:بے شک میں تمہاری ہربات پوری کرسکتا ہوں،میں بہت طاقت والا بادشاہ ہوں،تمہاری کوئی خواہش ایسی نہیں،جو میں پوری نہ کرپاؤں۔فقیر نے اپنی جھولی سےایک بھیک مانگنےوالاپیالہ نکالااورکہا:اگرآپ کواپنی دولت پر اتنا ہی ناز ہے تو اس پیالےکوبھر دیجئے۔بادشاہ نےحیرت سےپیالےکو دیکھا،وہ کالے رنگ کا عام سالکڑی کا خالی پیالہ تھا۔ اُس نے اِشارےسےایک وزیرکوقریب بُلایا اورحکم دیا:اس پیالےکو سونےکی اَشرفیوں سےبھردو، یہ فقیر بھی