Book Name:Mout Ka Zaeqa

فرما دیا۔ وہ سَر سے مٹی جھاڑتے ہوئے کھڑے ہوگئے، ان کے سَر اور داڑھی کےبال سفید تھے۔حضرتِ سیِّدُناعیسیٰ رُوْحُ اللہ عَلٰی نَبِیِّنَا وَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پوچھا:یہ سفیدی تو تمہارےزَمانے میں نہیں تھی؟ اُنہوں نے فرمایا: یَا رُوْحَ اللہ! میں آواز سُن کرسمجھا کہ قِیامت قائم ہو چکی ہے، اِس کے خوف سے میرے سر اور داڑھی کے بال سفید ہو گئے ۔حضرتِ سیِّدُناعیسیٰ رُوْحُ اللہ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے پوچھا: تمہارے اِنتقال کوکتناعَرصہ ہوا؟اُنہوں نے بتایا: میرے انتقال کو چارہزارسال گزر چکے ہیں مگر اب تک موت کی سختی اور کڑواہٹ مجھ سے نہیں گئی۔(حکایتیں اور نصیحتیں ۵۵۳)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبیب!                                       صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

       پیاری پیاری ا سلامی بہنو! اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ موت کا ذائقہ بہت تلخ ہے، اس کی کڑواہٹ بڑی  تیز ہے۔ غور کیجئے کہ جب چار ہزار سال گزرنے کے بعد بھی موت کی کڑواہٹ ختم نہیں ہوئی تو جس وقت موت آئے گی اس وقت  جو موت کی کڑواہٹ اور تلخی محسوس ہوگی اس  کا حال کیا ہوگااور اس میں کتنی شدت ہوگی؟

       دوسری بات یہ بھی سماعت فرمائیں کہ اس روایت میں ہے کہ حضرت سَىِّدُنا عیسیٰ عَلَیْہِ السَّلَامنے حضرت سام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے پوچھا کہ ان کے بال کیسے سفید ہو گئے جبکہ ان کے دور میں سفید نہیں ہوتے تھے، تو یاد رکھیں کہ روئے زمین پر سب سے پہلے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے بال سفید ہوئے، ان سے پہلے لوگ بوڑھے ہوتے تھے مگر ان کے بال سفید نہیں ہوتے تھے، سب سے پہلے جب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَام کے بال سفید ہوئے تو آپ نے اللہ پاک سے عرض کی: مالک یہ کیا ہے؟ اللہپاک نے فرمایا: یہ وقار ہے۔ آپ عَلَیْہِ السَّلَامنے عرض کی: اے میرے رب! میرے وقار کو مزید بڑھا دے۔(مرآۃُ المناجیح، ۶/۱۹۳ ملخصاً) تو حضرت سام بن نوح رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ کا زمانہ چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ السَّلَامسے پہلے کا ہے اس