Book Name:Bachon Par Shafqat-e-Mustafa

عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب ا ن کے گھر تشریف لے جاتے تو ارشاد فرماتے :’’یَا اَبَا عُمَیْر!مَا فَعَلَ النُّغَیْرُ‘‘ یعنی اے اَبُو عُمَیْر ، نُغَیْر (پرندے) نے کیا کیا؟(بخاری،  کتاب الادب،  باب الانبساط الی الناس ،  ۴/ ۱۳۴،  حدیث:۶۱۲۹)

واہ واہ!میرے ماں باپ پیارے آقا،حبیبِ خداصَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر قربان!کیسا پیارا انداز تھا آپ کا۔پیارے نبی ،رسولِ ہاشمیعَلَیْہِ السَّلَام  جب سفر سے واپس آتے تو آپ کا کیا انداز ہوتا تھا آئیے سنئے!

رَسُولُ اللہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب سفر سے واپس تشریف لاتےاور راستے میں بچے آپ کے استقبال کے لئےآتے تو آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ان کےپاس ٹھہرتے ،بعض بچوں کو سواری پر اپنے آگے اور بعض کو پیچھے سوار فرماتے(مسلم، کتاب فضائل الصحابة، باب فضائل عبدالله بن جعفر، ص ۱۰۱۴،   حدیث:۲۴۲۸ مفہوما)اور جوبچے رہ جاتے ان کے متعلق صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکو فرماتے کہ انہیں اپنے ساتھ سواریوں پر بٹھالیں ۔ بسا اوقات یہ بچے اس بات پر فخر کرتے اور ایک دوسرے سے کہتے کہ رَسُولُ اللہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مجھے اپنے آگے سوار کیا اور تجھے اپنے پیچھے سوار کیا اور بعض بچے یوں فخر کا اظہار کرتے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کے متعلق صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے فرمایا کہ انہیں اپنے ساتھ سواریوں پر بٹھا لیں ۔(احیاء العلوم، ۲/۷۱۲)

یاد رہے کہ یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کی شان تھی فی زمانہ ہم سے ہر ایک اس طرح راستے سے دُوسروں کے  بچوں کو اپنی سواری پر نہیں بٹھا سکتا۔کیونکہ اس سے بہت سارے مسائل پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد