Book Name:Tahammul Mizaje Ki Fazilat

(5)فرمایا:جو کسی مسلمان کی غَلَطی کو مُعاف کرے گاقِیامت کے دن اللہ پاک اُس کی غَلَطی کو مُعاف فرمائے گا ۔(ابن ماجه،کتاب التجارات،باب الاقالة،۳/۳۶،حديث:۲۱۹۹)

(6)ایک شخص بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوااور عَرْض کی:یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!ہم خادِم(Servant) کو کتنی بارمُعاف کریں؟آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خاموش رہے۔اُس نے پھر وہی سُوال دُہرایا،آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پھر خاموش رہے،جب تیسری بارسُوال کیا تو اِرْشاد فرمایا: روزانہ ستّر(70) بار۔(ترمذی،کتاب البر ولصلۃ ،باب ما جاء فی العفو عن الخادم،۳/۳۸۱،حدیث:۱۹۵۶)

حکیمُ الاُمَّت حضرت مفتی اَحمد یار خان رَحْمَۃُ اللّٰہ ِعَلَیْہ اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: عَرَبی میں سَتّر (70) (Seventy)کا لَفْظ بیانِ زِیادَتی کے لیے ہوتا ہے یعنی ہر دن اُسے بہت دفعہ مُعافی دو، یہ اُس صورت میں ہو کہ غلام سے خطاءًغَلَطی ہوجاتی ہے ،خباثتِ نَفْس سے نہ ہو اور قُصور بھی مالِک کا ذاتی ہو،شریعت کا یاقومی و مُلکی قُصور نہ ہو کہ یہ قُصورمُعاف نہیں کیے جاتے ۔(مرآۃ المناجیح،۵/۱۷۰)

صَلُّو ْا عَلَی الْحَبِیْب!                                  صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

شیطان کے وسوسے!

      پیاری پیاری ا سلامی بہنو! ستر (70)بار معاف کرنے کا ذکر کرنے میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ہم خود کو تحمل مزاج بنائیں۔ کتنی ہی بڑی غلطیاں واقع ہو جائیں ہمیں تحمل مزاجی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ آج ہم دیکھتی  ہیں کہ کسی کی غلطی پر ایک آدھ بار تو صبر کر لیا جاتا ہے لیکن اگر دوبارہ وہی غلطی سرزد ہو جائے تو سود سمیت بدلہ چکا دیا جاتا ہے۔ ایسے مواقع پر شیطان بھی وسوسےدل میں  ڈالتا ہے کہ”معاف کر  تی رہی  تو پھر جی لیا تم نے“ ”اگر نرم دل بن گئی  تو یہ دنیا تمہیں جینے نہیں دے گی“