Book Name:Imam Shafai Ki Seerat

اس کے باوجود ہمارے بزرگوں نے عِلْمِ دِین   نہ صرف سیکھا بلکہ اسے دنیا بھر میں پھیلایا ۔ آج کے دور میں تو عِلْمِ دِین    کا حصول بہت آسان ہوچکا ہے، جا بجا علم دین حاصل کرنے کے مواقع موجود ہیں مگر اس کے باوجود ہم ناقدرے تحصیلِ علم میں سُستی کا شکار نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے اسلاف گھر کے آرام دہ بستراور پر سکون نیند کی قربانی دے کر علمِ دین کے حصول کی خاطر دور دراز شہروں کا سفر کیا کرتے تھے اور اس راہ میں درپیش تمام مشکلات کا ڈٹ کر سامنا کیا کرتے تھے، یاد رکھئے!عِلْمِ دِین ہی ایک لازوال دولت ہے،علمِ دِین انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَامکی میراث ہے،علمِ دینقُربتِ الٰہی کا راستہ ہے، علمِ دین ہدایت کا سرچشمہ ہے، علمِ دین گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے، علمِ دین خوفِ خدا کو بیدار کرنے کا نسخہ ہے، علمِ دین دنیا وآخرت کی عزّت پانے کا سبب ہے، علمِ دین مُردہ دلوں کی حیات ہے، علمِ دین ایمان کی سلامتی کا محافظ ہے، علمِ دین خلقِ خدا کی محبت پانے کا سبب ہے۔ اَلْغَرَض! علمِ دین بے شمار خوبیوں کا جامع ہے، علمِ دین میں دِین بھی ہے ، علمِ دین میں دنیا بھی ہے، علمِ دین میں سکون بھی ہے ، علمِ دین میں اطمینان بھی ہے، علمِ دین میں لذّت بھی ہے ،علمِ دین میں آرام بھی ہے، لہٰذا عقلمند وہی ہے جوعلمِ دین کی طلب  میں مشغول ہوکر دنیا کے ساتھ نجاتِ آخرت کی بہتری  کابھی سامان کر جائے۔

افسوس! ہمارے معاشرے کی اکثریت نہ تو خود عِلْمِ دِین  سیکھنے کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنی اولاد کو عِلْمِ دِین سکھاتی ہے۔ اپنے ہونہار(لائق وذہین) بچوں کو دُنیاوی علوم وفنون تو خوب سکھائے جاتے ہیں مگرفرض علوم،قرآنِ کریم پڑھانے اورسُنّتیں سکھانے کی طرف توجہ نہیں کی جاتی ۔ یہ خواہش تو کی جاتی ہے کہ میرا بیٹا ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر اور کمپیوٹر پروگرامر بنے مگر اپنی اولاد کوحافظِ قرآن، عالمِ دین اور  مُفتیِ اسلام  بنانے کی سوچ ختم ہوتی جا رہی ہے۔اے کاش!ہم اپنی اولادکوعلِم دِین