Book Name:Khudkshi Par Ubharny Waly Asbaab

پیاری پیاری اسلامی بہنو! یقیناً خود کشی کرنا گویا خود کو مصیبتوں میں پھنسانا ہے، دنیا کی مصیبتیں قابلِ برداشت تھیں جبکہ آخرت میں ملنے والی تکالیف یقیناً ناقابلِ برداشت ہیں۔ اگر خدانخواستہ کسی کو خودکُشی کرنے کے وَسوَسے آئیں تو اس کو چاہئے کہ بیان کردہ وعیدوں سے عبرت حاصل کرے اور شیطان کے وار کو ناکام بنائے۔ اگر چِہ کیسی ہی پریشانیاں ہوں صبرو رِضا کا پیکر بن کر مردانہ وار حالات کا مقابلہ کرے۔ یا د رکھئے ! حدیث ِ پاک میں ہے :”اَلدُّنْیَا سِجْنُ الْمُؤْمِنِ وَجَنَّۃُ الْکَافِر“ دنیا مؤمِن کیلئے قید خانہ اور کافِر کیلئے جنّت ہے۔مسلم، کتاب الزھد والرقاق ،باب الدنیا سجن المؤمن و جنت الکافر، ص ۱۲۱۰، حدیث:۷۴۱۷ )ظاہِر ہے قید خانے میں تکلیفیں ہی تکلیفیں ہو تی ہیں ،زندگی کے اس سفر میں انسان ہمیشہ ایک جیسی حالت میں نہیں رہتا۔کوئی دن اس کے لیے نویدِ مسرت لے کر آتا ہے تو کوئی پیامِ غم، کبھی خوشیوں اور شادمانیوں کی بارش برستی ہے تو کبھی مصیبتوں اور پریشانیوں کی آندھیاں چلتی ہیں۔ ان آندھیوں کی زد میں  کبھی  انسان کی ذات آتی ہے اور کبھی اس کا گھر بار آتا ہے۔  اَلْغَرَض! مصیبتوں  اور پریشانیوں سے  سامنا ہوتا رہتا ہے۔اسی لئے اسلام نے مصیبتوں میں صبر اور خوشیوں میں اللہ  پاک کا شکر ادا کرنے کی تعلیم دی ہے۔

اللہ  پاک مسلمانوں کو امتحانات میں مُبتَلا فرما کر ان کے گناہوں کو مٹا تا اور دَرَجات کو بڑھاتا ہے۔ جو مَصائب و آلام پر صَبْر کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ اللہ  پاک کی رَحمتوں کے سائے میں آجا تے ہیں ، چُنانچِہ پارہ دو (2)، سورۃُ الْبَقَرۃ آیت نمبر 155 تا157 میں ارشاد ربّانی ہے:

وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) اُولٰٓىٕكَ عَلَیْهِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ -وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُهْتَدُوْنَ(۱۵۷) (پ۲،  البقرۃ  :۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷)