Book Name:Khudkshi Par Ubharny Waly Asbaab

کہ کبھی آپ  نے چپاتی نہیں کھائی، جَو کی موٹی موٹی روٹیاں اکثر غذا میں استعمال فرماتے۔ (سیرتِ مُصْطفےٰ،ص:۵۸۵، ۵۸۶ملخصاً)

سیدی اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  قناعتِ مُصطفیٰ کونذرانۂ عقیدت پیش کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں:

کُل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غذا

اُس شِکم کی قَناعت پہ لاکھوں سلام

(حدائقِ بخشش،ص ۳۰۴)

پیاری پیاری اسلامی بہنو!غور کیجئے! ہمارے پیارے آقا،مکی  مدنی مُصْطَفٰے  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے دوجہاں کے خزانوں کا مالک ہونے کے باوجودقناعت سے بھرپور زندگی بسر فرمائی، ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اپنے مکی آقا،مدنی داتاصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے نقشِ قدم پر چلیں، انہی  کی اتباع کریں اور قناعت کرنے والی بنیں۔ قناعت کے کئی دُنیوی و اُخروی فوائد ہیں، آئیے!ان میں سے کچھ  سنتی ہیں  :

قناعت کے فوائد اوراتباعِ خواہشات  کے نقصانات:

1)  قناعت دل سے دنیا کی مَحَبَّت ختم کر دیتی ہے جبکہ خواہشات کی پیروی دُنیا کی مَحَبَّت میں گرفتار  کردیتی ہے  جو کہ دِین کے لیے زہرِ قاتل ہے۔

2)  قناعت کرنے والے،  اَسباب سے زیادہ خالقِ اسباب پر نظر رکھتے ہیں،اس طرح وہ غیروں کی مُحتاجی سے بچ جاتے ہیں۔ جبکہ قَناعت سے عاری لوگ اسباب پر نظریں جما کر اِنہی کو سب کچھ سمجھ بیٹھتے ہیں ، اسی طرح وہ لوگوں سے اُمیدیں باندھتے اور ان سے توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔

3)  قناعت انسان کو  بری خواہشات سے بچالیتی ہےاور اس کی برکت سے زندگی سُکون اور اطمینان (Satisfaction)  سے بسر ہوتی ہے جبکہ خواہشات کی پیروی بے سکونی اور ذہنی دباؤ کو جنم دیتی