Book Name:Muashry Ki Islaah

(وسائل بخشش مرمم،ص۶۸۷)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                             صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

بُزرگانِ دِین اور اصلاحِ معاشرہ

اے عاشقانِ رسول!کوشش کیجئے اور حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا ترک کر دیجئے ،اسی میں بھلائی ہے۔  یقیناً حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دینابہت اچھااور ہمت کا کام ہے۔ لیکن یہی وہ طریقہ ہے جو مُعاشرے میں لڑائی جھگڑے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو ختم کر سکتا ہے۔ ہمارے بزرگوں کا یہ معمول تھا کہ ان کے ساتھ کیسا بھی بُرا سلوک کیا جاتا  ،وہ معاف کر دیا کرتے تھے اور کوئی بدلہ نہیں لیتےتھے۔ لوگ اِن کے حُقوق دَبالیتےلیکن یہ حضرات لوگوں کےحُقوق (Rights)کی ادائیگی سے کبھی غافِل نہ ہوتے،نادان لوگ اِنہیں طرح طرح کی تکلیفیں دیتے، لیکن یہ حضرات اُنہیں اِینٹ کا جواب پتّھر سے دینے اور نَفْس کی خاطِر غُصّہ کرنے کے بجائے اُنہیں دعائیں دیتے اور مُعافی سے نواز  کر ثواب کا خزانہ لُوٹتے ۔اس طرح جہاں انہیں معاف کردینے کاثواب پانے کا موقع ملتا، وہیں مُعاشرے میں بھی امن و سکون کی فضا پھلتی پھولتی۔ آئیے اسی طرح کے دوایمان افروز واقعات ہم بھی سنتے ہیں:

(1)ظلم کرنے والے کوبھی دعادی

دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب”اِحیاء العلوم“جلد3 ،صفحہ نمبر 216 پر ہے:ایک مرتبہ حضرت سَیِّدُنا اِبراہیم بن اَدہم رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہکسی صَحْراکی طرف تشریف لے گئے تو وہاں آپ کو ایک سِپاہی ملا،اُس نے کہا تم غلام ہو؟فرمایا :ہاں!اُس نے کہا:بستی کس طرف ہے؟آپ نے قَبْرِسْتان کی طرف اِشارہ فرمایا۔سِپاہی  نے کہا:میں بستی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔فرمایا :وہ تو