Book Name:Maa Baap Ko Satana Haram Hai

کیا،ایک روز نہ کھایا ، نہ پیا ، نہ سایہ میں بیٹھی، اس سے کمزور ہو گئی،پھر ایک رات دن اور اسی طرح رہی، تب حضرت(سَیِّدُنا)سعدرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ ان کے پاس آئے اورکہا:اے ماں !اگر تیری سو(100)جانیں ہوں اور ایک ایک کر کے سب ہی نکل جائیں تو بھی میں اپنا دِین چھوڑ نے والا نہیں!تو چاہےکھا چاہےمت کھا، جب وہ حضرت(سَیِّدُنا)سعدرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی طرف سے مایوس ہو گئی کہ یہ اپنا دِین چھوڑنےوالےنہیں تو کھانےپینےلگی،اس پراللہ پاک نےیہ آیت نازل فرمائی اورحکم دیا کہ والدین کےساتھ نیک سُلوک کیاجائےاوراگر وہ کُفر وشرک کاحکم دیں تونہ ماناجائے ۔(خزائن العرفان،ص۷۳۵ملخصاً)

اگر ماں باپ آپس میں لڑیں تو اولاد کیا کرے؟

اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : اگر ماں باپ میں باہَم تَنازُع (یعنی لڑائی)ہوتو نہ ماں کا ساتھ دے نہ باپ کا،ہرگز ایسا نہ ہوکہ ماں کی مَحبَّت میں باپ پر سختی کرے ۔ باپ کی دل آزاری یا اُس کو سامنے جواب دینا یا بے ادبانہ آنکھ ملاکر بات کرنا یہ سب باتیں حرام ہیں اور اللہ کریم کی نافرمانی  ہے۔اَولاد کو ماں باپ میں سے کسی کا ایسا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں،وہ دونوں اُس کی جنّت اور دوزخ ہیں،جسے اِیذا(تکلیف)دے گا جہنّم کا حقدار ٹھہرے گا۔وَالْعِیاذُبِاللّٰہ۔ (اللہ پاک کی پناہ)مَعْصِیَّتِ خالِق(یعنیاللہ پاک کی نافرمانی)میں کسی کی اِطاعت(یعنی فرماں برداری جائز) نہیں ،مَثَلًاماں چاہتی ہے کہ بیٹا اپنے باپ کو کسی طرح آزار(یعنی تکلیف)پہنچائے اور اگر بیٹا نہیں مانتا یعنی باپ پر سختی کرنے کیلئے تیّار نہیں ہوتا تو وہ ناراض ہوتی ہے، تو ماں کو ناراض ہونے دے اورہرگز اِس مُعامَلے میں ماں کی بات نہ مانے،اِسی طرح ماں کے مُعامَلے میں باپ کی نہ مانے۔عُلَمائے کرا م نے یوں تقسیم فرمائی ہے کہ خدمت میں ماں کو ترجیح ہے اور تعظیم باپ کی زائد ہے کہ وہ اس کی ماں کا بھی حاکم و آقا ہے۔(سمندری گنبد،ص۲۱)