Book Name:Auliya-e-Kiraam Kay Pakeeza Ausaaf

کی مستیوں میں ایسی غرق ہوئی ہے کہ ایمان کی سلامتی کی فکر کو بظاہر فراموش کرتی نظر آ رہی ہے، ایسیوں  کے لیے مقامِ عبرت ہے کہ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں کہ عُلمائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ ُ السَّلَام فرماتے ہیں:جس کو (زندگی میں) سلبِ ایمان(ایمان چھن جانے ) کا خوف نہ ہو،نزع کے وقت اس کا ایمان سلب ہوجانے کا شدید خطرہ ہے۔اسی وجہ سے تو اللہ پاک نے ہمیں اپنے خوف سے ڈرتے رہنے اورآخری دم تک اسلام پر ثابت قدم رہنے کی تاکید فرماتے ہوئے پارہ 4 سُوْرَۂ آلِ عِمْران کی آیت نمبر102 میں ارشاد فرمایا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ(۱۰۲) (پ۴،آل عمران:۱۰۲)                             

ترجَمۂ کنز الایمان :اے ایمان والو اللہ سے ڈرو جیسا اُس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔

میٹھی میٹھی ا سلامی بہنو! ہمارے بُزرگانِ دین اللہ  پاک کے خوف سے رونے والے تھے، ہمارے بُزرگانِ دین نیک اعمال کی کثرت کے باوجود ان پر تکیہ نہ کرنے والے تھے، ہمارے بُزرگانِ دین فکرِ آخرت کے لئے بے چین رہنے والے تھے ، ہمارے بُزرگانِ دین قبر و حشر کے خوف سے لرزنے والے تھے، جیسا اللہ پاک سے ڈرنے کا حق ہے ہمارے بُزرگانِ دین اللہ پاک سے اسی طرح ڈرنے والے تھے،  ہمارے بُزرگانِ دین اللہ پاک کی  خفیہ تدبیرسے ہمیشہ خوف زدہ رہنے والے تھےاور ہمارے بُزرگانِ دین اپنے ایمان کی حفاظت کیلئے کڑھن رکھنے والے  تھے،بِلا شبہ یہ لوگ ایمان کےحقیقی معنی میں قدردان تھے،انہیں اپنےآقا صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَکےاس فرمان ”اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم اعمال کا دار ومدار خاتمے پر ہے۔(بخاری،کتاب القدر،باب العمل بالخواتیم، ۴/۲۷۴، حدیث: ۶۶۰۷) پرپورا پورا یقین تھا جبھی ان کے شب و روز صرف اسی فکر میں بسر ہوتے کہ کہیں ہمارا ایمان ہم سے چھین نہ لیاجائے، ہمیں چاہيے کہ فانی دُنیا کے دھوکے میں مبُتلا رہنےاوراپنا قیمتی وقت فضولیات ،ناجائز و حرام کاموں میں برباد کرنے کے بجائے ایمان کی