Book Name:Nabi-e-Kareem Ki Mubarak Shehzadiyon Kay Fazail

رہے،گویا آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنے عمل سے رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کو بتلادیا کہ بیٹی نفرت کے نہیں محبت و شفقت کے لائق ہوتی ہے ۔یہ پتا چلا کہ پیارے آقا،مدینے والے مُصْطَفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی لختِ جگرحضرت سَیِّدتنا زَیْنبرَضِیَ اللہُ عَنْہا   کو انتہائی دردناک انداز میں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا لیکن  قربان جائیے!اس کے باوجود بھی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا ثابت قدم رہیں،مصیبت پر صبر ہی کیا اور اللہ کریم کا شکر ادا کرتی رہیں۔ لہٰذااگر کبھی ہم پر کوئی مصیبت آجائے یا راہِ خدا میں ہمیں کسی اذیت سے دوچار ہونا پڑے تو ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اللہ کریم پر بھروسا کرتے ہوئے صبر،صبر اور صبر سے کام  لیں۔ احادیثِ کریمہ میں مصیبتوں پر صبرکے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں۔آئیے!بطورِ ترغیب2فرامینِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  سنئے اور مصیبتوں پر صبر کرنے کی عادت بنائیے،چنانچہ

(1)ارشادفرمایا:اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرمادیتا ہے ۔  (بخاری، کتاب المرضی ،با ب ماجاء  فی کفارۃ المرض، رقم: ۵۶۴۵،۴/ ۴)

(2)ارشادفرمایا:بندے کو اپنی دینداری کے اعتبار سے مصیبت میں مبتلا کیا جاتا ہے اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں کمزور ہوتا ہے تو اللہ  کریم اس کی دینداری کے مطابق اسے آزماتا ہے۔بندہ مصیبت میں مبتلاہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس دنیا ہی میں اس کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔(ابن ماجہ،کتاب الفتن،باب الصبر علی البلاء،۴ /۳۶۹ ، رقم: ۴۰۲۳)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!یاد رکھئے!مصیبتوں اور آزمائشوں کا آنا باعثِ زحمت یعنی تکلیف نہیں بلکہ باعثِ رحمت و سعادت ہے،لہٰذا چاہے کتنی ہی مصیبتیں آپڑیں،آزمائشوں کے طوفان آجائیں، پریشانیوں کا سیلاب آجائے اور بیماریاں مکھی کی طرح چمٹ جائیں تب بھی حرفِ شکایت زبان پر