Book Name:Kamalaat-e-Mustafa

عمل سے یہ بھی پتہ چلا کہ ہمیشہ دوسروں کی خیر خواہی  کی کوشش کرنی چاہیے۔

خیرخواہی کیجئے

افسوس! آج ہمارے معاشرے میں خیرخواہی کا جذبۂ خیر بھی دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔ حالانکہ ہمارا  دین ”دینِاسلام“ انسانیت کا سب سے بڑا خیرخواہ ہے۔ ایک دوسرے کی بھلائی چاہنا اور خیرخواہی کرنا اس کی تعلیمات کا سنہری باب ہے۔رسولِ خدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس کی خوب ترغیب ارشاد فرمائی ہے۔ حضرت تمیم داری رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے فرمایاکہ دین خیر خواہی ہے، ہم نے عرض کی: کس کی؟ فرمایا: اللہ کی، اس کی کتاب ، اس کے رسول اور مسلمانوں کے اماموں اور عوام کی۔ (مسلم،ص51،حدیث:196) 

شیخ الحدیث حضرت علامہ عبد المصطفےٰ اعظمی رَحْمَۃُ اللّٰہ عَلَیْہ  فرماتے ہیں:خیرخواہی کے مفہوم میں  بڑی وُسْعَت ہے اور حقیقت تو یہ ہے کہ’’ہر مسلمان کی خیر خواہی‘‘یہ ایک ایسا عملِ خیرہے کہ اگر  ہر مسلمان اس تعلیمِ نبوت کو حِرزِ جان بنا کر اس پر عمل شروع کردے تو ایک دَم مسلمانوں کے بگڑے ہوئے معاشرےکی کایا پلٹ جائے اور’’مسلم معاشرہ ‘‘ آرام و راحت اور سکون و اطمینان کا ایک ایسا گہوارہ بن جائے کہ دنیاہی میں  بِہِشْت (جنت )کے سکون و اطمینان کا جلوہ نظر آنے لگے۔(منتخب حدیثیں،ص:۲۳۱)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!لفظِ خیرخواہی اپنےمفہوم کےاعتبارسےعام ہے، مثلاً مسلمانوں کے ساتھ نرمی  و  بھلائی  سے پیش آنا،ان کی مالی مددکرنا،ان کی پریشانی دُورکرنا،انہیں کپڑے پہنانا، انہیں کھانا کھلانا، انہیں آرام و سکون مہیا کرنا، ان کی ضروری خواہشات کو پورا کرنا، شرعی رہنمائی کرنا یا کروا دینا، بھٹکے ہووں کو راہِ راست پر لانا، الغرض کسی بھی طرح  سےاپنی  اسلامی  بہن کے ساتھ خیرخواہی کرنا ثواب  کا کام ہے۔لیکن