Book Name:Aashiqoon Ka Hajj

کردیتی ہے ۔جیساکہ حضرتِ سَیِّدُنا ابُومحمد مُرتَعِشرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہفرماتے ہیں:’’ میں نے بَہُت سے حج کئے اوران میں سے اَکْثر سَفرِ حج کسی قسم کا زادِ راہ لئے بِغیر کئے ۔پھر مجھ پر آشکار(یعنی ظاہر) ہوا کہ یہ سب تو میرے نَفْس کا دھوکا تھا کیونکہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھے پانی کا گھڑا بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نَفْس پر ان کا حکم گِراں(یعنی ناگوار) گُزرا، چُنانچِہ میں نے سمجھ لیا کہ سَفرِ حج میں میرے نَفْس نے میری مُوافَقَت فَقَط اپنی لذَّت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا کیونکہ اگر میرا نَفْس فَناء ہو چکا ہوتا توآج ایک حقِّ شَرعی پُورا کرنا(یعنی ماں کی اِطاعت کرنا) اُسے(یعنی نفس کو)بے حد دُشوار کیوں محسوس ہوتا ! (الرسالۃ القشیریۃ ، ص۱۳۵ )

حُبِّ جاہ کی لذّت عبادت کی مَشَقَّت آسان کر دیتی ہے                                     

                  میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!اس حکایت کا ہرگز یہ مَطلب نہیں کہ حضرتِ سَیِّدُنا ابُو محمد مُرتَعش رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہنے اپنی والدۂ مُحترمہ کا حکم نہیں  مانا بلکہ ان کا حکم  صِرْف نَفْس پر گِراں گُزراتو آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  نے اپنا یہ ذِہْن بنا لیا کہ  اتنے سال تک حج جیسی مُشکل عبادت، میں نے صرف  نفس کے دھوکے کا شکار ہوکر اَدا کی ہے۔اس  حکایت سے مزید یہ بھی معلوم ہواکہ  ہمارے بُزرْگارنِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کیسی مَدَنی سوچ رکھتے اور کس قَدَر عاجِزی کے خُوگر ہواکرتے تھے ۔ بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ عام لوگوں سے تو جُھک جُھک کر ملتے اور اُن کیلئے بچھ بچھ جاتے ہیں مگر والِدَین ، بھائی بہنوں اور بال بچّوں کے ساتھ اُن کا رویّہ جارحانہ ،غیراَخْلاقی اور  بَسااَوقات سخت دل آزار ہوتا ہے ،ایساکیوں ؟اس لئے کہ عوام میں عُمدہ اَخلاق کا مُظاہرہ مَقبولیّتِ عامّہ کا باعِث بنتا ہے جبکہ گھر میں حُسنِ سُلوک کرنے سے عزّت و شُہرت ملنے کی خاص اُمّید نہیں ہوتی!اس لئے یہ لوگ عوام میں خُوب میٹھے میٹھے بنے رہتے ہیں!