Book Name:Faizan e Shabaan

شارِحِ بُخاری حَضْرتِ عَلَّامہ مُفْتی محمد شریفُ الحق اَمْجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اِس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے  ہیں:مُراد یہ ہے کہ شَعْبان میں اَکْثر دِنوں میں روزہ رکھتے تھے اسے تَغْلِیْباً (یعنی غلبے اور زِیادَت کے لحاظ سے) کُل(یعنی سارے مہینے کے روزے رکھنے)سے تعبیر کردیا ۔جیسے کہتے ہیں:''فُلاں نے پُوری رات عبادت کی''جب کہ اس نے رات میں کھانا بھی کھایا ہو اورضَروریات سے فَراغت بھی کی ہو، یہاں تَغْلِیْباً  اکثر کو کُل کہہ دیا۔ مزید فرماتے ہیں :اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ شعبان میں جسے قُوّت ہو وہ زِیادہ سے زِیادہ روزے رکھے ۔البتَّہ جو کمزور ہو وہ روزہ نہ رکھے کیونکہ اس سے رَمَضان کے روزوں پر اَثْر پڑے گا، یِہی مَحمَل (یعنی مُرادو مَقْصد)ہے ان احادیث کا جن میں فرمایا گیا کہ نِصْف شَعْبان کے بعد روزہ نہ رکھو ۔  

(ترمذی حدیث ۷۳۸)(نزھۃ القاری،ج ۳ ،ص: ۳۷۷،۳۸۰) (آقاکا مہینہ،ص:۶)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے ہمارے پیارے آقا مدینے والے مُصْطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اس ماہِ مُبارَک کو کس قَدر پسند فرماتے، حالانکہ اس مہینے میں روزے فَرض نہیں مگر پھر بھی  آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ  کَثْرت سے روزے رکھا کرتے ۔ اب ذَرا غور کیجئے کہ پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سَیِّدُ الْمَعْصُوْمِیْن ہوکر بھی اس ماہِ مُبارک کے اَکْثر دن روزے کی حالت میں گُزاریں، تو ہم گُناہ گاروں کو اس ماہ میں روزے رکھنے کی کتنی ضَرورت ہے۔ہمیں چاہیے کہ رَمَضان کے روزوں کے عِلاوہ نَفْل روزے رکھنے کی بھی عادَت بنائیں ،اس میں ہمارے لیےبے شُمار دِینی فَوائد کے ساتھ ساتھ کثیر دُنْیَوِی فَوائد بھی ہیں۔ دِینی فَوائد میں اِیمان کی حِفاظت ، گُناہوں سے بچت،جہنَّم سے نَجات اور جَنَّت  کا حُصُول شامل ہیں اور جہاں تک دُنْیَوِی فَوائد کاتَعَلُّق ہے توروزے میں دن کےاَوْقات میں کھانے پینے میں صَرْف ہونے والے وَقْت اور اَخراجات کی بچت، پیٹ کی اِصْلاح ، مِعْدے کو آرام ملنے کے ساتھ ساتھ دِیگر