Book Name:Hajj Kay Fazail

گی ۔ہمارے بُزرگانِ دین بھی روزانہ نیک اعمال کرنے کا ایک ہدف بنا لیاکرتے اور پھر اس پر عمل کی بھر پورکوشش  فرماتے جبکہ ہدف(Target) مکمل کرلینے کے بعدبھی یہ حضرات اپنے آپ کو عبادت وریاضت میں ہی مشغول رکھتے۔ چنانچہ

حضرت سَیِّدُنا عامر بن عبدِقیس رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ(اپنے زمانے کے)سب سے افضل عبادت گزاروں میں سے تھے۔ آپ نے روزانہ ایک ہزار(1000) رکعت نوافل کی ادائیگی کو اپنے اُوپر لازم کرلیا تھا۔ لہٰذا آپ اِشراق کے وقت سے لےکرعصر کے وقت تک مسلسل نماز میں مشغول رہتے، پھر آپ نماز سے فراغت پاکرا س حال میں گھر تشریف لے جاتےکہ آپ کی پنڈلیاں اور قدم سُوجے  ہوئےہوتے،(اس قدر عبادت کے باوجود آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ کی عاجزی کایہ عالم تھا کہ)اپنے نفس کومخاطب کرکے کہتے:اے نفس!تُو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یا بُرائی کا حکم دینےکے لئے؟خدا عَزَّ  وَجَلَّ کی قسم !میں تجھے( نیک)اعمال میں اس قدر مصروف رکھوں گا کہ بستر  بھی تجھے نصیب نہ ہوگا۔ (عیون الحکایات، الحکایۃ السادسۃ والسبعون، ص۹۷)

مِری زِندگی بس تِری بندگی میں

ہی اے کاش گُزرے سدا یا اِلٰہی

(وسائلِ بخشش،ص۱۰۶)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                            صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

زندگی کا بھروسا نہیں !

میٹھی میٹھی اسلامی بہنو!یقیناً زندگی کا کوئی بھروسانہیں کہ سانسوں کی یہ مالا نہ جانے کب ٹُوٹ کر بکھر جائے،خدانخواستہ ہمیں گُناہوں سے توبہ کا وَقْت بھی نہ مل سکے اورہماری آخرت برباد ہوجائے