Book Name:Siddiq e Akbar Ka Kirdar o Farameen

تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وفاتِ ظاہری کو یاد کرو تمہاری مصیبت کم ہوجائے گی اور تمہاراجر بڑھ جائے گا۔([1])

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ نےمُلاحَظَہ فرمایا کہ حضرت سَیِّدُنا صِدِیقِ اکبر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ خَلِیْفَۃُ الْمُسْلِمِیْن  یعنی مُسلمانوں کے خلیفہ ہونےکے باوُجُودبھی تعزیت کو ترک نہیں کرتے تھے،لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ کی رِضا اور مُسلمانوں کی دِلجُوئی کی نیت سے مُصیبت زَدہ مُسلمان سے تعزیت کیا کریں،احادیثِ مُبارَکہ میں اس کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔چنانچہ حدیثِ پاک میں ہے کہ جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت کر ے گا ،اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اسے تقویٰ کا لباس پہنائے گا اور رُوحو ں کے درمیان اس کی رُوح پر رحمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا، اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اسے جنّت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے پہنائے گا، جن کی قیمت (ساری)دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔([2])

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!آئیے! تعزیت کے چند آداب بھی سُن لیتے ہیں چنانچہ

(1) تعزیت مسنون (یعنی سنت )ہے۔ (2) تعزیت کا وقت موت سے 3 دن تک ہے، اس کے بعد مکروہ ہے کہ غم تازہ ہوگا، مگر جب تعزیت کرنے والا یا جس کی تعزیت کی جائے، وہاں موجود نہ ہو یا موجود ہے، مگر اُسے علم نہیں تو بعد میں حرج نہیں۔ (3) دفن سے پیشتر بھی تعزیت جائز ہے، مگر افضل یہ ہے کہ دفن کے بعد ہو (4) مستحب یہ ہے کہ میّت کے تمام اقارب(یعنی قریبی رِشتہ داروں) سے تعزیت کریں ،چھوٹے بڑے مَرد و عورت سب کو ،مگر عورت کو اُس کے محارم ہی تعزیت کریں۔ تعزیت میں یہ کہے، اللہ تعالیٰ میّت کی مغفرت فرمائے اور اس کو اپنی رحمت میں ڈھانکے اور تم کو صبرعطا کرے اور


 



[1] التمھید لما فی المؤطا من المعانی والاسانید،  عبد الرحمن بن قاسم بن محمد ،۸/۹۷

[2] المعجم الاوسط للطبرانی،باب الھاء، ذکر من اسمہ ھاشم، ۶/ ۴۲۹، حدیث: ۹۲۹۲ ملتقطا