Book Name:Kasrat e Tilawat Karnay Walon kay Waqiyat

ہیں کہ جوشخص ہمیشہ تین (3) دن سے کم میں ختمِ قرآن کیا کرے،وہ جلدی تلاوت کی وجہ سے نہ تو الفاظِ قرآن صحیح طور پر سمجھ سکے گا اور نہ اس کے ظاہری معنیٰ میں غورکرسکے گا۔(پھر فرماتے ہیں)خیال رہے کہ یہ حکم عام مُسلمانوں کیلئے  ہے کہ وہ اگر بہت جلدی تلاوت کریں،تو زبان لپٹ جاتی ہے، حرف صحیح ادا نہیں ہوتے، خواص (یعنی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  کے نیک بندوں)کاحکم اورہےخودحضور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تہجدکی ایک ایک رکعت میں پانچ پانچ(5،5)،چھ چھ(6،6) پارے پڑھ لیتے تھے۔

حضرت سَیِّدُنَاعثمانِ غَنی(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ) نے ایک رات میں ختمِ قرآن کیا ہے، حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلام چند منٹ میں زبورشریف ختم کرلیتے تھے،حضرت علی (کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم)گھوڑا کسنے سے پہلے ختمِ قرآن کرلیتے تھے۔(صاحبِ)مرقات نے فرمایا کہ شیخ موسیٰ سدوانی شیخ ابو مدین کے اصحاب میں سے تھے ایک دن اور رات میں ستر ہزار(70000)ختم کرلیتے تھے، ایک دفعہ اُنہوں نے کعبۂ معظمہ میں سنگِ اسود چُوم کر دروازہ ٔ کعبہ پر پہنچ کر ختم ِقرآن فرمالیا اور لوگوں نے ایک ایک حرف سُنا ،لہٰذا اس حدیث کی بنا پر نہ تو مُروَّجہ شبینوں کو حرام کہا جاسکتا ہے اور نہ امامِ اعظم ابوحنیفہ اور ان صحابَۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمْ اَجْمَعِیْن پر اعتراض کیا جاسکتا ہے جو ایک دن اور رات میں پورا ختم کرلیتے تھے کہ یہ حکم عوام مسلمانوں کے لیے ہے جو اس قدر جلد قرآن شریف پڑھنے میں درست نہ پڑھ سکیں۔ ختمِ قرآن میں عام بزرگوں کے طَرِیقے مُختلِف رہے ہیں۔(مرآۃ المناجیح،ج۳،ص۲۷۰)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!           صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

12 مدنی کاموں میں سے ایک مدنی کام ’’مدرسۃ المدینہ (بالغان)

میٹھے میٹھے اسلامی  بھائیو!کثرت سےتلاوتِ قرآنِ کریم کا مقصد یہ نہیں کہ ہم   جلدی جلدی  تلفظ کی غلط ادائیگی کے ساتھ  تلاوت کریں اور  ثواب کمانے کے بجائے گُناہ   کے مُرتکب ٹھہریں بلکہ قرآنِ کریم کی تلاوت کے فضائل کا حُصُول اوررحمتوں کا  نُزول اسی صورت میں ہوسکے گا  جبکہ ہم