Book Name:Maula Ali ka Ishq e Rasool ma Ishq e Rasool kay Taqazay

تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں: میں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نمازِ فجر کے لیے نکلا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سوتے ہوئے جس شَخْص  پر بھی گزرتے اسے نماز کے لیےآواز دیتے یا پاؤں مبارک سے ہِلاتے۔(ابوداؤد،کتاب الصلاۃ،باب الاضطجاع بعدہا،۲/۳۳، حدیث:۱۲۶۴) چونکہ حَضْرتِ سَیِّدُنا مَولیٰ علی شیرِ خدا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سچے عاشقِ رسول تھے اس لیے آپرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نےحضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی اس  اَدا  پر بھی عمل  فرمایا اور اسی حالت میں اپنی جان جانِ آفریں کے سِپُرد کردی۔

         منقول ہے کہ جب مؤذن نے آکر اَمِیْرُالمؤمنین حَضرتِ سَیِّدُنامولیٰ علی شیرِ خداکَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْمکووقتِ نماز کی اطلاع دی، تو آپ نمازِ فجر کے لیے گھر سے چلے، راستے بھر لوگوں کو نماز کے لیے آواز لگا کر جگاتے جاتےتھے کہ اچانک اِبْنِ مُلْجَم بدبخت نےآپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ پر حملہ کرتے ہوئےتلوار کا وار کِیا جس سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہشدید زخمی ہوئے اور بعد میں جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ (تاریخ الخلفاء، علی بن ابی طالب، فصل فی مبایعۃ علی بالخلافۃ۔۔الخ، ص۱۳۹،ماخوذاً)

بعدِ خُلَفائے ثَلاثہ سَب صَحابہ سے بڑا

آپ کو رُتبہ مِلا مَولیٰ علی مُشْکِل کُشا

کیوں پھروں دَر دَر بھلا خَیْرات لینے کے لیے

میں فقط منگتا تِرا مَولیٰ علی مُشْکِل کُشا

(وسائل بخشش،ص:524،522)

صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!                                   صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

عشقِ رسول کے تقاضے

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یقیناً ہر مُسَلمان  پیارے آقا  عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سےعشق ومَحَبَّت کا دعویدار ہے، لیکن یہ دَعْویٰ  اسی صورت میں سچا مانا جا سکتا ہے جب کہ عشقِ رسول کے تقاضوں پرعمل بھی کِیا جائے، لہٰذا ہمیں دَعْویٔ عشقِ رسول کرنے کے ساتھ یہ بھی غورکرنا چاہیے کہ کیا ہم عشقِ رسول   کے