Book Name:Itaa'at e Mustafa صَلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہ وسلَّم

توقیر کرنی چاہیے۔ہرمہمان کے ساتھ اس کی حیثیّت  کے مُطابق سُلُوک کرنا چاہیے ،مہمانوں میں کچھ تو وہ ہوتے ہیں جو گھنٹے دو گھنٹے  کیلئے آتے ہیں اورچائے،پانی  پینے کے بعد چلے جاتے ہیں اوربعض کیلئے کھانے پینے کا خاص  اِہْتمام ضروری ہوتا ہے ،بعض وہ ہوتے ہیں جنہیں ہم شادی بیاہ ،عقیقے وغیرہ کسی تقریب میں دعوت دے کرخُودبُلاتے ہیں،اس میں امیرو غریب کا اِمتیاز کیے بغیر  کِھلانے پِلانے اور بٹھانے میں سب کیلئے یکساں اہتمام کرنا چاہیے،ایسانہ ہوکہ امیروکبیر لوگ تو شاہانہ اَنداز میں بیٹھے خُوب اَنْواع واَقْسام کے عُمدہ کھانوں  سے لُطف اُٹھائیں،مگر مُفْلس ومُتوَسِّط لوگوں کو عام کھانے  کھلائے جائیں، ایساہر گز نہیں کرنا چاہیے کہ اس سےمُسلمانوں کی دل شکنی ہوتی  ہے۔حدیثِ پاک میں ہے:بُرا کھانا اس ولیمے کاکھاناہے، جس میں مال دار لوگ بُلائے جاتے ہیں اور فُقَراء چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔(صحیح البخاري''،کتاب النکاح، باب من ترک الدعوۃ...إلخ،الحدیث: ۵۱۷۷،ج۳،ص۴۵۵) بعض مہمان بہن ،بھائی یا قریبی رشتہ دار  ہوتے ہیں ،جو کچھ  دنوں کیلئے رہنے  آتے ہیں ،ان کی مہمان نوازی بھی کرنی چاہیے ۔

حدیثِ پاک میں ہے :جوشخص اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اِکرام کرے، ایک دن رات اُس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، حسبِ استطاعت اس کے لیے پر تکلف کھانا تیار کروائے) اورضِیافت3 دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد ماحضر(جو گھر میں مَوْجُود  ہو)پیش کرے)اور3 دن کے بعد صَدَقہ ہے۔(صحیح البخاری''،کتاب الأدب،باب إکرام الضیف...إلخ، الحدیث:۶۱۳۵، ج۴، ص۱۳۶)

لوگوں کے مَقام ومرتبے کا خیال کرتے ہوئے یہ بات بھی ملحوظِ خاطِر رہنی چاہیےکہ اگرمہمان کوئی نیک پرہیز گاریاعالمِ دین یا پیرومُرشدہوں ،تو ان کی شان وعظمت کے مُطابق ان کی مہمان نوازی کی جائے۔اگر  مَذہبی شخصیّت کوکسی  تقریب میں بُلانا ہوتوسوچ سمجھ کر دعوت دی جائے کہ یہ دعوت  ان کی شان کے لائق بھی ہے یا نہیں ، مثلاً شادی وغیرہ کی تقریب میں ناچ گانا ،عورتوں کا بے پردہ پھرنا  اگرچہ سب کیلئے حرام ہی ہے مگر ایک عالمِ دین یا مذہبی شخص کو دعوت دینا ،اس کے مرتبے کی توہین