Book Name:Fazail e Sadqaat

اِسْتِعْمال میں لے آئے یا اُسے دُوسرے لوگوں پر خَرْچ کردے ۔

بے مِثال تَوکُّل اور لاجواب صَدَقہ

اسی طرح حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صِدّیقہ  رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  سے مروی ہے کہ ايک مسکين نے آپ سے سوال کيا، جبکہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا روزے سے تھيں اور گھر ميں سِوائے ايک روٹی کے کچھ نہ تھا۔ آپ نے اپنی باندی سے فرمايا: اِسے وہ روٹی دے دو، تو باندی نے کہا:آپ کی اِفْطاری کے لئے اس کے سِوا کچھ نہیں،سَیِّدہ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے فرمايا: اِسے وہ روٹی دے دو، باندی کہتی ہیں ، میں نے وہ روٹی اُسے ديدی ،ا بھی شام نہیں  ہوئی تھی کہ اہلِ بیت نے یا کسی اور شَخْص  نے جو ہدیہ  دِیا کرتا تھا، آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکوبطورِ ہدیہ ایک بکری بھجوائی، لانے والا اُس گوشت کو کپڑے میں ڈھانپے ہوئے لے کر آیا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے خادِمہ کو بُلاکر فرمایا: لو اِس میں سے کھاؤ ،يہ تمہاری اُس روٹی سے بہتر ہے۔ (شُعَبُ الإيمان، باب في الزکاۃ، فصل فيما جاء فی الإيثار،الحديث:۳۴۸۲،ج۳،ص۲۶۰)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یہ تھا اللہ والوں کا طرزِ عمل کہ جو کچھ بھی ہوتا،صَدَقہ کردیتے یہی وجہ ہے کہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  اُن کے تَوکُّل کے سبب اُنہیں بہتر سے بہتر بدلہ عطا فرماتا ہے ۔جیساکہ

    اپنے دور کے ابدال حضرت سَیِّدُنا ابو جعفر بن خطّاب رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: میرے دروازے پر ایک سائل (مانگنے والے)نے صدا لگائی، میں نے زوجہ محترمہ سے پُوچھا: تمہارے پاس کچھ ہے؟ جواب مِلا: چار(4) انڈے ہیں۔ میں نے کہا: سائل کو دے دو۔ انہوں نے تعمیل کی۔ سائل انڈے پاکر چلا گیا۔ ابھی تھوڑی دیر گُزری تھی کہ میرے پاس ایک دوست نے انڈوں سے بھری ہوئی ٹوکری بھیجی۔ میں نے گھر میں پُوچھا: اِس میں کُل کتنے انڈے ہیں؟ اُنہوں نے کہا: تیس(30)۔ میں نے کہا:تم نے تو فقیر کو چار(4) انڈے دیے تھے، یہ تیس(30) کس حساب سے آئے! کہنے لگیں: تیس(30) انڈے سالِم ہیں اور دس(10) ٹُوٹے ہوئے۔