Book Name:Faizan e Aala Hazrat

سُن لیجئےکہ وہ دونوں کُونجیں یہ گفتگو کر رہی ہیں:اگلی پچھلی سے کہہ رہی ہے جلدی کرو ،اندھیرا ہو رہا ہے، پچھلی نے اگلی کو جواب دیا ہے کہ جب ہم پچھلی وادی میں جلدی سے اُتری تھیں ، تو میرے بائیں پاؤں میں کانٹا چُبھ گیا تھا اس لیے مجھ سے تیز نہیں اُڑاجارہا ،تم آہستہ آہستہ چلو میں پورے زور سے چلتی ہوں تاکہ تمھارے ساتھ ساتھ رہ سکوں۔

اُن فرنگیوں کے پاس اُس وقت بندوق تھی اور دونوں بڑے نشانچی تھے ایک نے فوراً  نشانہ باندھا تو پچھلی کو نج گرتے ہی  تڑپنے لگی اور اُنہوں نے دیکھا کہ واقعی کونج کے بائیں پاؤں میں کانٹا چُبھا ہوا ہے ۔آپ کی یہ کرامت دیکھ کر وہ انگریز مسلمان ہو گئے اور کہنے لگے حُضُور! واقعی دین ِ اسلام سچا ہے۔(گلستانِ اولیاء ازمحمد امیر سلطان چشتی مطبوعہ چشتی کتب خانہ فیصل آبادص50ازفیضانِ اعلیٰ حضرت،ص391)

صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب !  صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!آپ جانتے ہیں یہ عالمِ دین کون تھے کہ جنہوں نے اپنےنُورِ علم اور نُورِ وِلایت سےپرندوں کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن کر ان انگریزوں کوبیان فرما دی!یہ کوئی اور نہیں بلکہ میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہْلسُنّت،حضرتِ علّامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن  تھے۔آپرَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ جہاں ایک سچےعاشقِ رسول اور باکرامت وَلی تھے وَہیں ایک زبردست عالمِ دین بھی تھے ،کم و بیش پچاس عُلُوم پرآپ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِتَعَالٰی عَلَیْہ  کو کامِل دَسْترس (یعنی مَہارت) حاصل تھی۔

مصطفٰے کا وہ لاڈ پیار         واہ کیا بات  اعلٰی حضرت کی

غوث ِ اعظم کی آنکھ کا تارا   وہ کیا بات اعلٰی حضرت کی