طبیبوں کے لئے اعلیٰ حضرت کے مدنی پھول

اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن کی شہرت اگرچہ ایک عالِم و مفتی کے طور پر ہے لیکن آپ کی تحریروں میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ افراد کے لئے راہنمائی (Guideline) موجود ہے۔ ذیل میں امامِ اہلِ سنّت علیہ رحمۃ ربِّ العزّت کا ایک ایسا مکتوب مع خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔([1]) جس میں آپ نے ایک طبِیب کو علاج سے متعلق راہنما مدنی پھول عنایت فرمائے۔ آج سے تقریباً 133سال پہلے لکھا گیا یہ خط بالخُصوص شعبۂ طِبّْ (Medical) سے وابستہ افراد اور بالعُموم تمام مسلمانوں کے لئے آج بھی اتنا ہی مُفِید ہے جتنا اس زمانے میں تھا۔

اَز بریلی                   4جمادی الآخر1306ھ

برادرِ عزیز مولانا عبدالعزیز سَلَّمَہُ الْعَزِیْز عَنْ کُلِّ رَجِیْز

اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَ رَحْمَۃُ اللہِ وَ بَرَکَاتُہٗ

آپ کا خط آیا خوش کیا، اللہ تَعَالٰی آپ کو دَستِ شِفا بخشے اور جَفاو شِقا (ظلم اور بدبختی) سے محفوظ رکھے۔ برادرم (میرے بھائی)! تم طبیب ہو، میں اِس فن سے محفوظ مگر وہ دِلی محبت جو مجھے تمہارے ساتھ ہے مجبور کرتی ہے کہ چند حرف تمہارے گوش گزار کروں: (1)جانِ برادر! جس طرح فقہ میں صَدْہا حَوادِث (سینکڑوں واقعات) ایسے پیش آتے ہیں جو کُتُب میں نہیں اور اُن میں حُکْم لگانا ایک سخت و دُشوار گُزار پہاڑ کا عُبور کرنا ہے جس میں بڑے بڑے ٹھوکریں کھاتے ہیں، بِعَیْنِہٖ یہی حال طِب کا ہے بلکہ اس سے بھی نازک تر، بالکل بے دیکھی چیز پر حکم کرنا ہے۔ پھر اگر آدَمی قابِلیّتِ تامّہ نہیں رکھتا اور برائے خود کچھ کر بیٹھا اگرچہ اتفاق سے ٹھیک بھی اتری، گناہگار ہوگا۔ جس طرح تفسیرِ قراٰن کے بارے میں ارشاد ہوا: مَنْ قَالَ فِی الْقُرْاٰنِ بِرَاْیِہٖ فَاَصَابَ فَقَدْ اَخْطَاَ جو قراٰن میں اپنی رائے سے کہے اور ٹھیک ہی کہے، جب بھی خطا کی۔(ترمذی،ج4،ص440،حدیث:2961)

یوں ہی حدیث شریف میں فرمایا:مَنْ تَطَبَّبَ وَلَمْ یُعْلَمْ مِنْہُ طِبٌّ فَھُوَ ضَامِنٌ جو طِب کرنے بیٹھا اور اس کا طبیب ہونا معلوم نہ ہو اس پر تاوان ہے۔(مشکوٰۃ،ج1،ص641،حدیث:3504) یعنی اس کے علاج سے کوئی بگڑ جائے گا تو اس کا خون بہا اس کی گردن پر ہوگا۔ اگرچہ کسی اُستادِ شفیق نے تمہیں مَجاز و ماذُون کردیا ہو (یعنی علاج کرنے کی اجازت دیدی ہو) مگر میری رائے میں تم ہرگز ہرگز ہَنُوز مُستَقِل تنہا (علاج) گوارا نہ کرو اور جب تک ممکن ہو مَطَب (Clinic) دیکھتے اور اصلاحیں لیتے رہو۔ میں نہیں کہتا کہ جُداگانہ مُعَالَجَہ (Medical treatment) کے لئے نہ بیٹھو، بیٹھو مگر اپنی رائے کو ہرگز رائے نہ سمجھو اور ذرا ذرا میں اَساتِذہ سے اِسْتِعانت (مدد) لو۔(2)رائے لینے میں کسی چھوٹے بڑے سے عار (شرم) نہ کرو۔ کوئی علم (میں) کامل نہیں ہوتا، آدمی (نے) بعد فراغِ درس (تعلیم حاصل کرنے کے بعد) جس دن اپنے آپ کو عالم مُستِقل جانا اسی دن اس سے بڑھ کر کوئی جاہل نہیں۔ (3)کبھی محض تَجْرِبہ پر بے تشخیصِ حادثہ خاص (بیماری کو Diagnose کئے بغیر) اعتماد نہ کرو۔ اختلافِ فَصْل، اختلافِ بَلَد، اختلافِ عُمْر، اختلافِ مِزاج (موسم، شہر، عمر، مزاج کے مختلف ہونے) وَغیرَہا بہت باتوں سے عِلاج مختلف ہوجاتا ہے۔ ایک نسخہ ایک مریض کیلئے ایک فَصْل میں صَدہا بار مُجَرَّب  (سینکڑوں بار تجربہ) ہوچکا، کچھ ضرور نہیں کہ دوسری فَصْل میں بھی کام دے بلکہ ممکن کہ ضَرَر (نقصان) پہنچائے وَعَلٰی ہٰذَا اِخْتِلَافُ الْبِلَادِ وَالْاَعْمَارِ وَاَمْزِجَۃِ وَغَیْرِھَا (شہروں، عُمروں اور مِزاجوں کے مختلف ہونے کا بھی یہی معاملہ ہے)۔ (4)مَرَضکبھی مُرَکَّب  ہوتا ہے۔ ممکن کہ ایک نسخہ ایک مرض کے لئے تم نے فُصُولِ مُخْتَلِفَہ، بِلَادِ مُتَعَدِّدَہ و اَعْمَارِ مُتَفَاوِتَہ و اَمْزِجَہ مُتَبَائِنَہ (مختلف موسموں، شہروں، عمروں اور مزاجوں) میں تجرِبہ کیا اور ہمیشہ ٹھیک اُترا مگر وہ مرض ساذِج (سادہ، Simple) تھا یا کسی ایسے مریض (Patient) کے ساتھ جسے یہ مُضِر (نقصان دہ، Harmful) نہ تھا، اب جس شخص  کو دے رہے ہو اس میں (سادہ مرض) ایسے مرض سے مُرَکَّب ہو جس کے خلاف ضَرَر (نقصان) دے گا اور وہ تجربہ صَد (100) سالہ لَغْو (بے کار) ہو جائے گا۔ (5)ابھی اِبتدائے اَمْر (Practice کا آغاز) ہے۔ کبھی بعض دَلَالَات (علامتوں) پر مَدَارِتشخیص (بیماری کی پہچان کی بنیاد) نہ رکھو مثلاً صرف نَبْض یا مُجَرَّد تَفْسِرَہ (صرف قارورَہ) یا محض اِسْتِماعِ حال (حالت سننے) پر قَناعت نہ کرو، کیا ممکن نہیں کہ نَبْض دیکھ کر ایک بات تمہاری سمجھ میں آئے اور جب قارُورَہ (پیشاب کی شیشی، Urine Bottle) دیکھو، رائے (Opinion)  بدل جائے، تو بالضَّرُور حتّٰی الاِمکان بطرفِ تشخیص (مرض کی پہچان کے ایک سے زائد ذرائع) کو عمل میں لاؤ اور ہر وقت اپنی عِلْمُ و فَہم و حَول و قُوَّت سے بری ہوکر اللہ تعالٰی کی جناب میں اِلتجا کرو کہ اِلقائے حق (صحیح بات کی طرف رہنمائی) فرمائے۔ (6)کبھی کیسے ہی ہلکے سے ہلکے مَرَض کو آسا ن نہ سمجھو اور اس کی تشخیص و مُعالَجہ میں سَہْل اَنگاری (سُستی) نہ کرو،

دشمن نہ تواں حقیر و بے چارہ شُمرُد(دشمن کو چھوٹا اور بے بس نہیں سمجھنا چاہئے)

ہوسکتا ہے کہ تم نے بادِیٔ النَّظر میں (سرسری نظر سے) سَہْل (آسان) سمجھ کر جُہْدِ تام نہ کیا (خوب کوشش نہ کی) اور وہ باعثِ غلطی تشخیص ہوا جس نے سہل کو دشوار کردیا یا فِی الْوَاقِع (در حقیقت) اسی وقت ایک مرض عَسِیر (مشکل) تھا اور تم نے قِلّتِ تحقیق سے آسان سمجھ لیا۔ کیا تم نے نہیں پڑھا کہ دِق (ٹی بی) سا دُشوار مرض وَالْعِیاذُ بِاللہِ تَعَالٰی اوّل (شروع میں) سَہْل معلوم ہوتا ہے۔ (7)مریض یا اس کے تیماردار جس قدر حال بیان کریں کبھی اس پر قَناعت نہ کرو، ان کے بیان میں بہت باتیں رہ جاتی ہیں جنہیں وہ نقصان نہیں سمجھتے یا ان کے خیال اس طرف نہیں جاتے۔ ممکن ہے کہ وہ سب بیان میں آئے (تو) صورتِ واقعہ دِگرگُوں (کچھ اور) معلوم ہو۔ میں نے مسائل میں صَدْہا (سینکڑوں مرتبہ) آزمایا ہے کہ سائِل نے تقریراً یا تحریراً (زبانی یا تحریری طور پر) جو کچھ بیان کیا اس کا حُکْم کچھ اور تھا، جب تفتیش کرکے تمام مَالَہٗ وَمَاعَلَیْہ (تفصیلات) اس سے پوچھے گئے، اب حکم بدل گیا۔ بہت مواقع پر ہم لوگوں (مُفتیانِ کرام) کو رخصت ہے کہ مُجَرَّد (صرف) بیانِ سائل پر فتویٰ دیدے مگر طبیب (Doctor) کو ہرگز اجازت نہیں کہ بے تشخیصِ کامل (مرض کو اچھی طرح Diagnose کئے بغیر) زبان کھولے۔ (8)تمام اَطِبِّا (Doctors) کا معمول ہے اِلَّا مَنْ شَآءَ اللہ (چند ایک کے علاوہ) کہ نسخہ لکھا اور حوالہ کیا، ترکیبِ استعمال زبان سے ارشاد نہیں ہوتی۔ بہت مریض جُہلاءِ زمانہ (بے پڑھے لکھے) ہوتے ہیں کہ آپ کا لکھا ہوا نہ پڑھ سکیں گے۔ طبیب صاحب (Doctor) کو اعتماد یہ ہے کہ عطّار (دوا  بیچنے والا) بتادے گا، عطّار کی وہ حالت ہے کہ مزاج نہیں ملتے اور ہجومِ مَرِض (یعنی مریضوں کے ہجوم) سے اس بیچارے کے خود حواس گم ہیں۔ اس جلدی میں انہوں نے آدھی چہارم (نامکمل) بات کہی اور دام سیدھے کئے اور رخصت۔ بارہا دیکھا گیا ہے کہ غلط استعمال سے مریض کو مَضَرَّتیں پہنچ گئیں (نقصان پہنچ گیا)، لہٰذا بہت ضروری ہے کہ تمام ترکیبِ دوا و طریقۂ اصلاح و استعمال خوب سمجھا کر سمجھ کر ہر مریض سے بیان کرے، خُصوصاً جہاں اِحتمال ہو کہ فرق آنے  سے نقصان پہنچ جائے گا۔ (9)اکثر اطِبّاء نے کج خُلقی و بدزبانی و خَردِماغی و بے اِعتِنائی اپنا شِعار (پہچان) کرلی، گویا طِب کسی مرضِ مُزْمِن (پرانی بیماری) کا نام ہے جس نے یوں بدمزاج کرلیا۔ یہ بات طبیب کے لئے دین و دنیا میں زَہْر ہے۔ دین میں تو ظاہر ہے کہ تکبّر و رُعونت و تشدّد و خُشُونَت (سختی) کس درجہ مَذموم ہے خصوصاً حاجت مند کے ساتھ اور دنیا میں یوں کہ رُجوعِ خلق (لوگوں کی آمد) ان کی طرف کم ہوگی، وہی آئیں گے جو سخت مجبور ہو جائیں گے، لہٰذا طبیب پر اہم واجبات سے ہے کہ نیک خُلق، شیریں زبان، مُتواضِع، حلیم، مہربان ہو، جس کی میٹھی باتیں شربتِ حیات کا کام کریں۔ طبیب کی مہربانی و شیریں زبانی مریض کا آدھا مرض کھودیتی ہے اور خواہی نخواہی دل اس کی طرف جھکتے ہیں اور نیک نیت سے ہوتا ہے تو خدا بھی راضی ہوتا ہے جو خاص جالبِ دستِ شفاء ہے۔ (10)بہت جاہل اَطِبّاء کا انداز ہے کہ نبض دیکھتے ہی مرض کا عَسِیرُ الْعِلاج (مشکل علاج والا) ہونا بیان کرنے لگتے ہیں اگرچہ واقعی میں سَہْلُ التَّدَارُک (آسان علاج والا) ہو۔ مطلب یہ کہ اچھا ہوجائے گا تو ہمارا شکر زیادہ ادا کرے گا اور شُہرہ بھی ہوگا کہ ایسے بگڑے کو تندرست کیا حالانکہ یہ محض جہالت ہے، بلکہ اگر واقع میں مرض دشوار بھی ہو تاہم ہرگز اس کی بو آنے نہ پائے (مریض کو اس بات کا پتہ نہ چلنے پائے) کہ یہ سن کر دردمند دل ٹوٹ جاتا ہے اور صدمہ پاکر ضُعْفِ طبیعت باعثِ غلبۂ مرض ہوتا ہے، بلکہ ہمیشہ بکشادہ پیشانی تسکین و تسلی کی جائے کہ کوئی بات نہیں، اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی  اب آپ اچھے ہوئے۔ (11)بعض احمق ناکردہ کار یہ ظلم کرتے ہیں کہ دوا کو ذریعہ تشخیصِ مرض بتاتے ہیں یعنی جو مرض اچھی طرح خیال میں نہ آیا انہوں نے رَجْماً بِالْغَیْب (اندازے سے) ایک نسخہ لکھ دیا کہ اگر نفع کیا تو فَبِہا (اچھی بات) ورنہ کچھ حال تو کھلے گا، یہ حرامِ قطعی ہے۔ علاج بعد تشخیص ہونا چاہئے نہ کہ تشخیص بعد علاج۔

اس قسم کی صدہا باتیں ہیں مگر اس قلیل کو کثیر پر حمل کرو اور میں اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی وقتاً فوقتاً تمہیں مطلع کرتا رہوں گا۔ بہت باتیں ایسی ہیں جن کا اس وقت بیان ضرور نہیں، جب خدا نے کیا کہ تمہارا مَطَب (Clinic) چل نکلا اور رُجوعِ خلائق ہوئی اس وقت اِنْ شَآءَ اللہُ الْعَظِیْم بیان کروں گا۔ اگر تمہیں یہ میری تحریر مقبول (ہو ) تو اسے بطور دَسْتُوْرُ الْعَمَل اپنے پاس رکھو اور اس کے خلاف کبھی نہ چلو، اِنْ شَآءَ اللہُ تَعَالٰی بہت نفع پاؤ گے اور اگر یہ سمجھ کرکہ یہ طِب سے جاہل ہے، اس فن میں اس کی بات پر کیا اعتماد، تو بے شک یہ خیال تمہارا بہت صحیح ہے۔ اس تقریر پر مناسب ہے کہ اپنے اساتذہ کو دکھالو اور وہ پسند کریں (تو) معمول یہ کرو۔

وَالسَّلَامُ خَیْرَ خِتَام فقیر احمد رضا قادری عُفِیَ عَنْہ

4جمادی الآخرروزجمعہ 1306ھ

(کلیات مکاتیبِ رضا دوم،ص147)

خلاصہ: (1)علمِ فقہ کی طرح علمِ طِب کا معاملہ بھی انتہائی نازک اور دشوار ہے۔ احتیاط اس میں ہے کہ علمِ طِب کے حصول کے بعد فوراً علاج معالجہ شروع کرنے کے بجائے کچھ عرصہ کسی ماہر ڈاکٹر کی صحبت میں رہ کر علاج کی مشق کی جائے۔ (2)طبیب کو چاہئے کہ کسی بڑے یا چھوٹے سے مشورہ کرنے میں شرم نہ کرے اور وقتاً فوقتاً ماہر ڈاکٹروں سے مشورہ کرتا رہے۔ اپنے آپ کو مشورے سے بے پرواہ اور فن کا ماہر سمجھنا، ناسمجھی کی پہلی سیڑھی ہے۔ (4،3)ایک دوا بسا اوقات ایک مریض کے لئے فائدہ مند اور دوسرے کے لئے نقصان دہ ہوتی ہے لہٰذا بیماری کی پہچان کے بغیر ہرگز دوا کا استعمال نہ کروایا جائے۔ یونہی بسا اوقات ایک سے زائد امراض جمع ہوجاتے ہیں، اس کے اعتبار سے بھی دوا میں فرق ہوگا۔ عُمْر، مزاج اور آب و ہوا وغیرہ کے مختلف ہونے سے بھی علاج مختلف ہوسکتا ہے۔ (5)مرض کی پہچان کے لئے ایک ذریعے پر انحصار نہ کیا جائے بلکہ مختلف ذرائع سے اس کی تصدیق کی جائے نیز اپنی مہارت پر بھروسا کرنے کے بجائے اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دعا کی جائے۔ (6)کسی بیماری کو معمولی سمجھ کر اس کے علاج میں کوتاہی نہ کی جائے،  ٹی بی جیسی خطرناک بیماری بھی ابتدا میں معمولی لگتی ہے۔ (7)مریض یا اس کے ساتھ آنے والے فرد کے بیان کو کافی نہ سمجھا جائے بلکہ تمام ضروری معلومات حاصل کرکے پھر علاج شروع کیا جائے۔ (8)کون سی دوا کتنی اور کب استعمال کرنی ہے نیز کھانے پینے وغیرہ میں کیا احتیاطیں کرنی ہیں اس کے بارے میں مریض یا اس کے تیمار دار کو اچھی طرح سمجھا یا جائے۔ میڈیکل اسٹور والے کے بھروسے پر یا دیگر مریضوں کو دیکھنے کی جلدی میں اس معاملے سے پہلو تہی نہ کی جائے۔ (9)مریضوں کے ساتھ بے اِعتنائی اور بد اَخلاقی سے پیش آنا دین کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی نقصان دہ ہے کہ بداخلاق آدمی سے لوگ دور بھاگتے ہیں۔ رِضائے الٰہی پانے کے لئے خوش اَخلاقی کو معمول بنایا جائے تو اس کی برکت سے اِنْ شَآءَ اللہ        عَزَّوَجَلَّ لوگ زیادہ رجوع کریں گے اور انہیں شفا بھی حاصل ہوگی۔ (10)بیماری اگرچہ خطرناک اور جان لیوا ہو لیکن حتَّی الامکان مریض کو تسلی اور شفا کی امید دلائی جائے، اس کی ڈھارس بندھائی جائے۔ اپنی شہرت (Publicity) کی خاطر معمولی بیماری کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنا کہ مریض کے ٹھیک ہونے پر میرا نام ہوگا، شرعی اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی نامناسب عمل ہے۔ (11)بیماری کی تشخیص (Diagnose) کئے بغیر اندازے سے مریض کو دوا دینا کہ یا تو ٹھیک ہوجائے گا یا پھر اس کی بیماری ظاہر ہوجائے گی، ناجائز عمل ہے۔

اللہ عَزَّوَجَلَّاعلیٰ حضرت پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم



1۔۔۔بعض مقامات پر معمولی ترمیم کی گئی ہے۔


Share

Articles

Comments


Security Code