حکیم الامّت مفتی احمدیار خان نعیمی   رحمۃُ اللہِ علیہ کی نصیحتیں

بزرگانِ دین کے مبارک فرامین

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ کی نصیحتیں

*مولانا ابوالنور راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

تفسیرِ نورُالعرفان، تفسیر نعیمی، مراٰۃ المناجیح اور جاءالحق جیسی شاہکار، مشہور و معروف اور مقبولِ عام کتابوں کے مصنف حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت شوّالُ المکرّم 1314سن ہجری کو بدایوں شریف (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پہلے ہند اور پھر پاکستان میں درس و تدریس، فتویٰ نویسی اور تصنیف وغیرہ مختلف خدماتِ دینیہ میں آپ نے اپنی زندگی گزاری۔ بدایوں شریف میں طلوع ہونے والا یہ آفتاب 3رمضان 1391ھ مطابق 24 اکتوبر 1971ء کو پاکستان کے علاقے گجرات میں غروب ہوا، گجرات ہی میں آپ کا مزارِ پُر انوار ہے۔

اس مضمون میں آپ کی کتاب ”اسلامی زندگی“ سے چند نصیحتوں کا انتخاب کیا گیا ہے، خود بھی پڑھئے اور دیگر احباب کے ساتھ بھی شئیر کیجئے۔

(1)(رمضان شریف) میں دن کو سب کے سامنے کھانا پینا سخت گناہ اور بے حیائی ہے پہلے زمانہ میں ہندو اور دوسرے کفار بھی رمضان میں بازاروں میں کھانے پینے سے بچتے تھے کہ یہ مسلمانوں کے روزے کا زمانہ ہے مگر جب مسلمانوں نے خود ہی اس مہینہ کا ادب چھوڑ دیا تو دوسروں کی شکایت کیا ہے۔

(2) (عید، بقر عید)بھی عبادت کے دن ہیں ان میں بھی مسلمان گناہ اور بے حیائی کرتے ہیں اگر مسلمان قوم حساب لگائے تو ہندوستان میں ہزارہا روپیہ روزانہ سینماؤں، تھیڑوں اور دوسری عیاشی میں خرچ ہورہا ہے۔ اگر قوم کا یہ روپیہ بچ جائے اور کسی قومی کا م میں خرچ ہو تو قوم کے غریب لوگ پَل جائیں اور مسلمانوں کے دن بدل جائیں غرضیکہ ان دنوں میں یہ کام سخت گناہ ہيں۔

(3)فضول خرچیوں کو بند کرو!اور اس سے جوپیسہ بچے اس سے اپنے قرابت داروں اور محلے والوں، یتیم خانوں اور دینی مدرسوں کی مدد کرنا چاہئے،یقین جانو کہ مسلمان قوم کی عید جب ہی ہوگی جب ساری قوم خوش حال، ہنرمند اورپرہیز گار ہو،اگر تم نے اپنے بچّوں کو عید کے دن کپڑوں سے لاد دیا لیکن تمہاری مسلم قوم کے غریب بچے اس دن دربدر بھیک مانگتے پھرے تو سمجھ لو کہ یہ عید قوم کی نہیں۔حق تعالیٰ مسلم قوم کو سچی عید نصیب فرماوے۔اٰمین

(4)مسلمان کا مل ایمان والا جب ہوسکتا ہے کہ صورت میں بھی مسلمان ہو اور دل سے بھی یعنی اسلام کا اس پر ایسا رنگ چڑھے کہ صورت اور سیرت دونوں کو رنگ دے، دل میں اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ والہ وسلَّم کی اطاعت کا جذبہ موجیں ماررہا ہو، اس میں ایمان کی شمع جل رہی ہو اور صورت ایسی ہو جو اللہ عزوجل کے محبوب صلَّی اللہ علیہ والہ وسلَّم کو پسند تھی۔

(5)بڑی مونچھیں حضور صلَّی اللہ علیہ والہ وسلَّم کو ناپسند تھیں۔ دنیا میں ہزاروں پیغمبر تشریف لائے مگر کسی نبی نے نہ داڑھی منڈائی اور نہ مونچھیں رکھائیں،لہٰذا داڑھی فطرت یعنی سنتِ انبیاء ہے۔

(6)غذا اور لباس کا اثر دل پر ہوتا ہے، تو اگر کافروں کی طرح لباس پہناگیا یا کفار کی سی صورت بنائی گئی تو یقیناً دل میں کافروں سے محبت اور مسلمانوں سے نفرت پیدا ہوجاوے گی غرضیکہ یہ بیماری آخر میں مہلک ثابت ہوگی اس لئے حدیث پاک میں آیا ہے ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ جو کسی دوسری قوم سے مشابہت پیدا کرے وہ ان میں سے ہے۔

(7)ہم بھی محکمۂ اسلام اور سلطنتِ مصطفوی اور حکومت ِالٰہیہ کے نوکر ہیں، ہمارے لئے علیٰحدہ شکل مقرر کردی کہ اگر لاکھوں کافروں کے بیچ میں کھڑے ہوں تو پہچان لئے جائیں کہ مصطفےٰ علیہ السّلام کا غلام وہ کھڑا ہے ۔

(8)داڑھی کے بھی بہت فائدے ہیں سب سے پہلا فائدہ تو یہ ہے کہ داڑھی مردکے چہرے کی زینت ہے اور منہ کا نور جیسے عورت کیلئے سر کے بال یا انسان کیلئے آنکھوں کے پلک اور بھویں زینت ہیں۔ اسی طرح مرد کیلئے داڑھی۔اگر عورت اپنے سر کے بال منڈادے تو بری معلوم ہوگی یا کوئی آدمی اپنی بھویں  اور پلکیں صاف کرادے وہ بُرا معلوم ہوگا۔اسی طرح مرد داڑھی منڈانے سے بُرا معلوم ہوتا ہے۔

(9)آدمی کی عزت لباس سے نہیں بلکہ لباس کی عزت آدمی سے ہے اگر تمہارے اندر کوئی جوہر ہے یا اگر تم عزت اور ترقی والی قوم کے فرد ہوتو تمہاری ہر طرح عزت ہوگی کوئی بھی لباس پہنو اگر ان چیزوں سے خالی ہو تو کوئی لباس پہنو عزت نہیں ہوگی۔

(10)جیسے جسم پر جان حکومت کرتی ہے کہ ہر عضو اس کی مرضی سے حرکت کرتا ہے اس طرح اس جان پر اس سلطانِ کونین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوحاکم بناؤکہ جوحرکت ہوان ہی کی رضا سے ہو اسی کانام تصوّف ہے اور یہ ہی حقیقت، معرفت اور طریقت کا مغز ہے۔

(11) ڈوم میراثی(گانے باجے سے کمائی کرنے والے) لوگو ں کو (صدقہ و خیرات) دینا ہر گز جائز نہیں کیوں کہ ان   سے ہمدردی کرنا دراصل ان کو گناہ پر دلیر کرنا ہے۔

(12)مسلمانوں کو بر باد کر نے والے اسباب میں سے بڑا سبب ان کے جوانوں کی بیکاری اور بچوں کی آوارگی ہے۔ پاکستان کے مسلمانوں پر اخراجات زیادہ اور آمدنی کے ذریعہ محدود بلکہ قریباً نابود ہیں، یقین کرو، بیکاری کا نتیجہ ناداری ہے۔ ناداری کا انجام قرضداری اور قرضداری کا انجام ذلت و خواری ہے بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ناداری و مفلسی صدہا عیبو ں کی جڑ ہے۔ چوری، ڈکیتی، بھیک بدمعاشی، جعلسازی اس کی شاخیں ہیں اور جیل پھانسی اس کے پھل، مفلس کی بات کا وزن ہی نہیں ہوتا ۔

(13)مسلمانوں کو چاہئے کہ بیکاری سے بچیں، اپنے بچو ں کو آوارہ نہ ہونے دیں اور جو انوں کو کام پر لگائیں، دو سری قوموں سے سبق لیں، دیکھو ہندوؤں کے چھوٹے بچے یا سکول وکالج میں نظر آئیں گے یا خوانچہ بیچتے۔ مسلمانوں کے بچے یا پتنگ اڑاتے دکھائی دیں گے یا گیند بَلّا کھیلتے دیگر قوموں کے جوان کچہریوں، دفتروں اورعمدہ عمدہ عہدوں کی کر سیوں پر دکھائی دیں گے یا تجارت میں مشغول نظر آئیں گے مگر مسلمانوں کے جوان یا فیشن ایبل اور عیش پر ست ملیں گے یا بھیک مانگتے دکھائی دیں گے یا بدمعاشی کرتے نظر آئیں گے ۔

(14)صحابَۂ کرام صرف نمازی ہی نہ تھے وہ مسجدو ں میں نمازی تھے ۔ میدان جنگ میں بہادر غازی ، کچہری میں قاضی اور بازار میں اعلیٰ درجہ کے کارو باری،غرضیکہ مدرسۂ نبوی میں ان کی ایسی اعلیٰ تعلیم ہوئی تھی کہ وہ مسجدوں میں ملائکہ مقربین کا نمونہ ہوتے تھے مسجدو ں سے با ہرمُدَ بِّراتِ اَمْر کا نقشہ پیش کرتے تھے ۔

 (15)ہر شخص اپنے مناسب طا قت تجارت کرے، قدرت نے ہر ایک کو علیٰحدہ علیٰحدہ کام کے لئے بنایا ہے کسی کو غلہ کی تجارت پھلتی ہے ، کسی کو کپڑے ،کسی کو لکڑی کی ، کسی کو کتابوں کی، غرضیکہ تجارت سے پہلے یہ خوب سو چ لو کہ میں کس قسم کی تجارت میں کامیاب ہوسکتا ہوں ۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ، نائب مدیر ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی


Share

Articles

Comments


Security Code