رسول اللہ کی غذائیں:دودھ(قسط:01)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی غذائیں

دودھ

*مولانا احمد رضا عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ2024ء

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جن مشروبات کو پیاہے ان میں سے ایک دودھ بھی ہے۔ دودھ ہر عمر کے افراد کے لئے ایک صحت بخش غذا اور بے مثال مشروب ہے۔ قدیم عربی میں دودھ کو ”لَبَنٌ“جبکہ جدید عربی میں اسے ”حَلِیبٌ“ کہتے ہیں۔ آج کل عربی میں لَبَن سے دہی مراد لیا جاتا ہے جبکہ قراٰنِ کریم میں دو جگہ دودھ کا ذکر لفظِ لَبَن سے وارد ہے۔

پہلی آیت: جنتی نعمتوں کے ذکر کے وقت ارشاد ہوتا ہے:

(وَاَنْهٰرٌ مِّنْ لَّبَنٍ لَّمْ یَتَغَیَّرْ طَعْمُهٗۚ    )

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور ایسے دودھ کی نہریں ہیں جس کا مزہ نہ بدلے۔([1])

تفسیر: *جنتی دودھ کا ذائقہ اس لئے نہیں بدلے گا کیونکہ وہ جانوروں کے تھنوں سے نہیں نکالا جائے گا، بلکہ اللہ پاک جنت میں دودھ کی نہریں پیدا فرمائے گا اور وہ نہریں اسی صورت پر رہیں گی جس پر اللہ پاک نے انہیں پیدا فرمایا ہے۔([2])

*جنت کا دودھ دنیاوی دودھ کی طرح زیادہ عرصے تک رکھنے کی وجہ سے کھٹا نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کا ذائقہ بدلے گا، البتہ جنتی کی خواہش کے مطابق اس کا ذائقہ تبدیل ہوجائے گا۔([3])

دوسری آیت:قراٰنِ کریم میں دوسرے مقام پر اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

(وَاِنَّ لَكُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةًؕ     نُسْقِیْكُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُوْنِهٖ مِنْۢ بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآىٕغًا لِّلشّٰرِبِیْنَ(۶۶))

ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تمہارے لیے مویشیوں میں غور و فکر کی باتیں ہیں (وہ یہ کہ) ہم تمہیں ان کے پیٹوں سے گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ (نکال کر) پلاتے ہیں جو پینے والے کے گلے سے آسانی سے اترنے والا ہے۔([4])

تفسیر:کفار یہ کہتے تھے کہ جب آدمی مرگیا اور اس کے جسم کے اَجزامُنْتَشر ہوگئے اور خاک میں مل گئے، وہ اجزاء کس طرح جمع کئے جائیں گے اور خاک کے ذَرّوں سے اُن کو کس طرح ممتاز کیا جائے گا؟ اِس آیتِ کریمہ میں غور کرنے سے وہ شُبہ بالکل ختم ہوجاتا ہے کہ اللہ پاک کی یہ شان ہےکہ وہ غذا کے مخلوط اجزاء میں سے خالص دودھ نکالتا ہے اور اس میں  قرب و جوار کی چیزوں کی آمیزش کا شائبہ بھی نہیں آتا، اُس حکیم برحق کی قدرت سے کیا بعید کہ انسانی جسم کے اجزاء کو منتشر ہونے کے بعد پھر مُجتَمع (یعنی جمع) فرمادے۔([5])

اس آیت کے تحت امام فخرالدین رازی رحمۃُ اللہِ علیہ دودھ پیدا ہونے سے متعلق فرماتے ہیں:جگر اور تھن کے درمیان بہت سی رگیں ہوتی ہیں اور ان رگوں میں خون تھن کی طرف بہتا ہے، تو اللہ پاک اس تھن میں خون کی شکل کو دودھ کی شکل سے بدل دیتا ہے اس طرح دودھ بنتا ہے۔([6])

احادیثِ طیبہ میں دودھ سے متعلق جو روایات ملتی ہیں وہ دو طرح کی ہیں۔ ایک وہ جن میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دودھ پینے کا ذکر ہے جبکہ دوسری وہ جن میں صرف دودھ کا ذکر ہے۔یہاں پہل قسم کی روایات پیش کی جارہی ہیں۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دودھ پیا:

(1) حضرت اُمّ الفضل بنتِ حارث رضی اللہُ عنہا بیان کرتی ہیں کہ عرفہ کے دن کچھ لوگوں نے ان کے پاس حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے روزے کے متعلق گفتگو کی بعض نے کہا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم روزہ دار ہیں اور بعض نے کہا کہ روزہ دار نہیں تو اُمُّ الفضل نے حضور ِانور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں دودھ کا ایک پیالہ بھیجا جبکہ آپ عرفات میں اپنے اونٹ پر قیام فرما تھے تو آپ نے پی لیا۔([7])

(2)حضرت عبدا بن عباس رضی اللہُ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دودھ پیا، پھر کلی فرمائی اور فرمایا: اس میں چکناہٹ ہوتی ہے۔([8])

(3)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرے پاس دو برتن لائے گئے، ایک میں دودھ تھا دوسرے میں شراب تھی۔ مجھ سے کہا گیا: ان میں سے جس برتن سے آپ چاہیں پی لیں! تو میں نے دودھ اختیار کیا، اسے پی لیا۔ مجھ سے کہا گیا کہ آپ نے فطرت کو پالیا ہے، اگر شراب اختیار کرتے تو آپ کی اُمّت گمراہ ہو جاتی۔([9])

(4)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے اپنی خالہ کے بارے میں فرمایا ہے کہ انہوں نے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف کھانے کی دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ دودھ اور پنیر بھی پیش کیا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دودھ پی لیا اور پنیر کھا لیا۔([10])

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: ایک دن میں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو خدمتِ اقدس میں دودھ کا پیالہ پیش کیا گیا تو مجھ سے فرمایا: اہلِ صفہ کو میرے پاس بُلا لاؤ۔ جب وہ آئے تو آپ نے فرمایا: پیالہ اٹھاؤ اور ان کو پلاتے جاؤ۔ جب سب نے پی لیا تو پھرآپ نے مجھ سے فرمایا: بیٹھو اور پیو۔ میں برابر پیتا رہا یہاں تک میرا پیٹ بھر گیا، پھر میں نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیا تو آپ نے اللہ پاک کی حمد و ثنا بیان کی اور بِسْمِ اللہ پڑھ کر باقی دودھ پی لیا۔([11])

(6)ایک دن نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ آپ کی سیدھی طرف آپ کے چچا حضرت عباس کے چھوٹے بیٹے عبداللہ بیٹھے تھے جبکہ دوسری طرف بڑی عمر کے صحابہ تھے۔ اسی دوران ایک شخص آپ کے لئے دودھ کا پیالہ لے آیا، آپ نے اس سے تھوڑا پیا باقی صحابہ میں تقسیم کرنا چاہا۔ اب دائیں جانب چھوٹا بچّہ اور بائیں جانب بڑی عمر کے صحابہ تھے اور پیارے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عادت تھی کہ ہر شان والا کام سیدھی طرف سے شروع کیا کرتے تھے اس لئے عبداللہ بن عباس سے فرمانے لگے: بچّے! اگر اجازت دو تو بڑوں کو دے دوں؟ عبدُاللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے عرض کی: آپ کے بچے ہوئے پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے وہ دودھ آپ کو دے دیا۔([12])

(7)حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے بکری کا دودھ دوہا گیا اور حضرت انس کے گھر میں جو کنواں تھا، اس کا پانی اس میں ملایا گیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا، آپ نے نوش فرمایا۔ آپ کی بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ اور داہنی طرف ایک اعرابی تھے، حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کو اندیشہ ہوا کہ کہیں نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ پیالہ اعرابی کو نہ دے دیں اس لئے آپ نے عرض کی، یارسول ا!ابوبکر رضی اللہُ عنہ کو دیجئے، تو آپ نے وہ پیالہ سیدھی جانب بیٹھے ہوئے  اعرابی کو دے دیا اور ارشاد فرمایا:داہنا مستحق ہے پھر ا س کے بعد جو داہنے ہو۔([13])

(بقیہ اگلے ماہ کے شمارے میں)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغُ التحصیل جامعۃُ المدینہ، شعبہ سیرت مصطفےٰ المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])پ26،محمد:15

([2])تفسیر طبری،محمد، تحت الآیۃ:15، 21/201

([3])روح البیان، 8/506- تفسیر قرطبی،محمد، تحت الآیۃ:15، 8/170

([4])پ14،النحل:66

([5])خزائن العرفان، النحل، تحت الآیۃ: 66، ص510، 511

([6])تفسیرِ کبیر،النحل،تحت الآیۃ:66، 7/232

([7])بخاری،1/555، حدیث:1661

([8])بخاری، 1/94،حدیث:211

([9])بخاری، 2/437، حدیث:3394

([10])دیکھیے:بخاری، 3/529، حدیث:5402

([11])بخاری، 4/234، حدیث:6452ملخصاً

([12])بخاری،2/95،حدیث: 2351

([13])بخاری،2/95،حدیث: 2352


Share