Book Name:Data Hazoor Aur Adab Ki Taleem
کے مزارِ پُراَنْوار پر حاضِر ہوا، 3 ماہ تک مزار شریف پر حاضِر رہا، ہر روز 3 مرتبہ غسل 30 مرتبہ وُضُو کرتا (یعنی طہارت و پاکیزگی اور آداب کا مکمل خیال رکھتا) مگر میری مشکل حل نہ ہوئی (قُدْرت کو یہی منظُور تھا کہ اس بار مِزارِ وَلِی پر رہ کر نہیں بلکہ تجربے اور مشاہدے کے ذریعے مشکل حل ہو)۔
فرماتے ہیں: جب پریشانی دُور نہ ہوئی تو میں نے خُراسان جانے کا ارادہ کر لیا، خُراسان جاتے ہوئے راستے میں ایک گاؤں آیا، وہاں مجھے ایک خانقاہ نظر آئی۔
پہلے دَور میں اَوْلیائے کرام مدرسہ یا عبادت گاہ بناتے تھے، جہاں رہ کر اپنے مریدوں کی تربیت کیا کرتے تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ داتا حُضُور رحمۃ اللہ عَلَیْہ رات گزارنے کے لئے اس خانقاہ میں تشریف لے گئے مگر یہاں معاملہ اُلٹ تھا، اس خانقاہ میں رہنے والے، عبادت گزار اور عُلَما نہیں بلکہ جاہِل اور بداَخْلاق تھے، حُضُور داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ عَلَیْہ فرماتے ہیں: عام مُسَافِروں کی طرح میرے پاس سامان نہیں تھا، جسم پر کُھردَرَا لباس تھا، ہاتھ میں لاٹھی اور وُضُو کے لئے برتَن تھا، میری اس حالت کو دیکھ کر انہوں نے میرا مذاق اُڑایا، رات ہو چکی تھی اور وہاں رات گزارنا ضروری تھا، لہٰذا میں گنجائش نہ ہونے کے باوُجُود اس خانقاہ میں ٹھہر گیا، ان لوگوں نے مجھے نچلی منزل پر ٹھہرایا اور خُود بالاخانے میں چلے گئے، کھانے کا وقت ہوا تو انہوں نے مہمان نوازی کے آداب کا کچھ خیال نہ رکھا، مجھے پھپھوندی لگی ہوئی سُوکھی روٹی دی اور خود مُرَغَّن غذائیں کھاتے رہے اور ساتھ ہی ساتھ مجھ پر آوازیں بھی کستے رہے، کھانے کے بعد انہوں نے خربوزے کھائے اور چھلکے مجھ پرپھینکے، غرض جتنا ہو سکا انہوں نے مجھے ستایا، میری تحقیر کی، میں صبر سے یہ سب