$header_html

Book Name:Aal e Nabi Ke Fazail - 3 Muharram 1447 Bayan

یہ ہے کہ ان سے گُنَاہ ہونا ممکن تو ہے مگر اللہ  پاک انہیں گُنَاہوں سے بچا لیتا ہے جبکہ مَعْصُوم کا مطلب ہے: وہ حضرات کہ جن سے گُنَاہ ہونا شرعاً ممکن ہی نہیں ہے۔

پھر یہ بھی یاد رہے کہ ساداتِ کرام میں سے وہ بلند رُتبہ حضرات جو ولیُّ اللہ  ہیں جیسے بی بی فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ا، امام حَسَن وحُسَین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم ا، ایسے ہی حُضُور غوثِ پاک شیخ عبد القادِر جیلانی، حُضُور داتا گنج بخش علی ہجویری رَحمۃُ اللہ  علیہما وغیرہ، یہ تو گُنَاہوں سے محفوظ ہیں، دیگر جو ساداتِ کرام ہیں، ان سے گُنَاہ ہو تو جاتے ہیں لیکن اِنْ شَآءَ اللّٰهُ الْکَرِیْم! پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے صدقے ان کی گُنَاہوں پر پکڑ نہیں ہو گی۔چنانچہ اس ضمن میں عاشِقِ صحابہ و اَہْلِ بیت، اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے 2 مبارک فرامین سنیئے!

 (1): ہَر سیّد صحیح النسب (یعنی وہ سَیِّد کہ واقعی عِلْمِ اِلٰہی میں حَسَنَیْنِ کَرِیْمَیْن کی اَوْلاد میں سے ہے،  وہ) نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے جسم اَقْدَس کا پارہ (جزو، حصّہ) ہے اور نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے جسم اَقْدَس کا کوئی پارہ (جزو، حصہ) مستحقِ نار نہیں۔([1])

(2): ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ہاں! سلامت ایمان (یعنی جس سید زادے کا ایمان سلامت ہو اس) کے اعمال کیسے ہی ہوں اللہ  پاک کے کرم سے پختہ اُمِّید یہ ہی ہے کہ جو اس کے علم میں سید ہیں ان سے اصلاً کسی گُنَاہ پر کچھ مواخذہ نہ فرمائے۔([2])

صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!                                               صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

جا! تُو نے خود کو جہنّم سے بچا لیا

حضرت عبد الله  بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما  سے   روایت  ہے کہ ایک شخص نے سلطانِ


 

 



[1]...فتاوی رضویہ،جلد: 15، صفحہ:738، بتقدم وتاخر۔

[2]...فتاوی رضویہ،جلد: 29، صفحہ: 640۔



$footer_html