$header_html

Book Name:Dil Ki Islah Kyon Zarori Hai

ہو ؟ بچہ بولا : سیاہی پکّی ہے ، اسے اُتار رہا ہوں۔ اس شخص نے پوچھا : کیا رَسِّی سے سیاہی اُتر  جاتی ہے ؟ بچہ ذہین تھا ، فوراً بولا : جی ہاں ! اُتر جاتی ہے ، کیا آپ نے دیکھا نہیں ، رَسِّی سے ڈول باندھ کر کنوئیں میں لٹکاتے ہیں ، پھر کھینچتے ہیں ،  کنوئیں کی مُنْڈیْر پتھر کی ہوتی ہے ، اس کے باوُجود رَسِّی کھینچنے سے اس پر گڑھے پَڑ جاتے ہیں  ( یعنی رَسِّی پتھر میں گڑھا ڈال سکتی ہے تو تختی سے سیاہی کیوں نہیں ہٹا سکتی ) ۔ آدمی بولا : بیٹا ! پتھر میں گڑھا تو ایک مُدَّت گزر جانے سے پڑتا ہے۔ بچہ بولا : جی نہیں ! رَسِّی کھینچنے سے گڑھا پڑتا ہے ، اگر رَسِّی کھینچی نہ جائے ، خواہ صدیاں گزر جائیں ، کنوئیں کی منڈیر میں گڑھا نہیں پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی بچے نے نصیحت کرتے ہوئے کہا : اے اچھے انسان ! میں نے آپ کو اِشَارہ دیا ہے ، اگر آپ اس میں غور کرتے تو آپ کے دِل کی سیاہی بھی مٹ جاتی۔ آدمی نے حیرت سےپوچھا : کیا میرے دِل پر بھی سیاہی ہے ؟ بچہ بولا : چچا جان ! سیاہی کس رنگ کی ہوتی ہے ؟ کہا : کالی۔ بچہ بولا : تو گُنَاہوں سے بڑھ کر کالی کون سی شَے ہے ؟ یہ سُنتے ہی آدمی نے چیخ ماری اور ندامت سے رونے لگا۔ بچہ بولا : چچا جان ! اب آپ کو دِل صاف کرنے کی دَوا مل گئی ہے۔ آدمی نے پھر حیرانی سے پوچھا : وہ دوا کونسی ہے ؟ بچے نے کہا : ندامت کے آنسو... ! ! یہ گُنَاہوں کو دھو کر دِل صاف کر دیتے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک کے حبیب ، دِلوں کے طبیب صَلَّی اللہ عَلَیْہ وَآلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا : بےشک آنسو روزِ قیامت آگ کے سمندر بجھا ڈالیں گے۔ ( [1] )   

صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب !                                                   صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد


 

 



[1]...بستان الواعظین ، صفحہ : 100بتغیر۔



$footer_html