Book Name:Din Raat Kesay Guzarain

ذرا تَصَوُّر تو باندھئے !  ( Just Imagine it ) یہ دُنیا کتنی دیر کی ہے۔ کیا معلوم؛ آج کی یہ رات ہماری زِندگی کی آخری رات ہو ، کیا معلوم ؛ اگلے ہی لمحے حضرت مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ السَّلَام تشریف لے آئیں اور ہمیں صبح کا سورج دیکھنا بھی نصیب نہ ہو... ! !

ویسے بھی چاہے ہم سو سال بھی زِندگی گزار لیں ، آخر ایک نہ ایک دِن تو مرنا ہی ہے ، اس دُنیا کو چھوڑنا ، جو کمایا یہیں چھوڑ کر قبر میں اُترنا اور اپنی کرنی کا پھل بھگتنا  ہی پڑے گا۔

گر جہاں میں سو برس تُو جی بھی لے         قبر میں تنہا قیامت تک رہے

قبر روزانہ یہ کرتی ہے پکار                 مجھ میں ہیں کیڑے مکوڑے بیشمار

یاد رکھ ! میں ہوں اندھیری کوٹھڑی         تجھ کو ہو گی مجھ میں سُن ! وحشت بڑی

میرے اندر تُو اکیلا آئے گا                ہاں ! مگر اعمال لیتا آئے گا

گھپ اندھیری قبر میں جب جائے گا       بے عمل ! بے انتہا گھبرائے گا

کام مال و زر نہیں کچھ آئے گا              غافل انساں ! یاد رکھ پچھتائے گا

صَلُّوا عَلَی الْحَبیب !                                             صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

 ہر دِن عمر گھٹتی جا رہی ہے

پیارے اسلامی بھائیو ! اچھا ، سمجھ دار  ( Sensible ) اور عقل مند وہی ہے جو غفلت کی چادر اُتارے اور قبر و آخرت کی تیاری میں مَصْرُوف ہو جائے۔حضرتِ عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ  عَنْہ جب لوگوں کے پاس بیٹھتے تو فرماتے : اے لوگو ! شب و روز گزرنے کے ساتھ ساتھ تمہاری عمریں بھی کم  ( Minus ) ہوتی جا رہی ہیں۔ تمہارے اعمال محفوظ کئے جارہے ہیں۔ موت اچانک آئے گی تو جو نیکی کی فصل بوئے گا جلد ہی اسے شوق سے کاٹے گا اور جوبرائی کی کھیتی