Book Name:Dost Kaise Banaye

سمجھاتے ہیں مگر اَوْلاد سامنے سے بڑی دلیل دیتی ہے : فُلاں تو مجھے کوئی بُری بات نہیں سکھاتا ، وہ تو بہت اچھا ہے ، آپ کو خوامخواہ اس میں بُرائیاں نظر آتی ہیں۔

ایسی اَوْلاد کو چاہئے کہ والدَیْن کی بات مان لیں ، والدَین جو کچھ جانتے ہیں ، ہمارا بچگانہ ذِہن اُن تک نہیں پہنچ سکتا ، ویسے بھی کوئی بُرا بول کر تھوڑی کہے گا کہ میں بُرا ہوں ؟  مثلاً کوئی بےنمازی ہے ، وہ بول کر نہیں کہے گا کہ تم نماز نہ پڑھا کرو ! جو بداَخْلاق ہے وہ بول کر نہیں کہے گا : تم بھی بداَخْلاقیاں کرو ! گالیاں بکا کرو ! کوئی بھی دوست ایسا نہیں کرے گا ، اگر وہ ایسا کرے تو کون  اس کے ساتھ دوستی لگائے گا... ؟  بُرا دوست ایک بھٹی ہے ، جو اس کے پاس بیٹھتا ہے ، آگ کی چنگاریاں اس کی طرف ضرور آتی ہیں۔

ہم ذرا غور کریں ! ہمیں شریعت نے صحبت کے اچھے بُرے اَثْرات سے آگاہ کیا ہے ، اَلصُّحْبَۃُ مُؤَثِّرَۃ صحبت اَثر کرتی ہے۔

سُوال یہ ہے کہ صحبت کے اَثَر کرنے کا انداز کیا ہوتا ہے ؟  کسی کی صحبت ہم پر کس ذریعے سے اَثر انداز ہوتی ہے ؟  امام راغب اَصْفَہانی رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے اس راز سے پردہ اُٹھایا ہے ، آپ فرماتے ہیں : بُرا  دوست اپنے دوست کی عادات ( Habits )  کو اپنی باتوں اور کاموں  سے نہیں بگاڑتا بلکہ صِرْف اُس کی طرف دیکھنے سے ہی عادتیں بگڑ جاتی ہیں۔ ( [1] )  

اللہ اَکْبَر ! معلوم ہوا؛ ہمارا دوست ہمیں بُری باتیں بتائے یا نہ بتائے ، ہمیں بُرائی کی طرف لے کر جائے یا نہ جائے ، اُس کی بُری صحبت کا اَثَر اس کی طرف دیکھنے سے ہو گا ، ہم جیسے جیسے اس کو دیکھتے جائیں گے ، ہمارے دِل پر اَثَر پڑتا جائے گا ، آخر ایک دِن آئے گا کہ


 

 



[1]...کتاب الذریعہ  الی مکارم الشریعہ ، فصل الخامس ، الحث علی مصاحبۃ الاخیار ، صفحہ : 259۔