Book Name:Data Huzoor Ki Nasihatain
دِین بھی ہیں ، اُس سُوال کا جواب 100 فیصد جانتے بھی تھے ، اس کے باوُجُود آپ نے ایسے نہیں کیا کہ جیسے ہی سُوال ہوا؛ بَس جلدی سے جواب لکھ کر روانہ کر دیا۔ آپ نے اِحتیاط فرمائی ، پہلے اِستخارہ کیا ، پھر اچھی اچھی نیتیں کیں ، تب سُوال کا جواب لکھا یعنی کَشْفُ الْمَحْجُوب تحریر فرمائی۔
اب ہم غور کریں؛ ہمارا حال کیا ہوتا ہے؟ہم سے تو بَس کوئی سُوال پوچھ لے ، ہمیں اُس کا جواب آتا ہو یا نہ آتا ہو ، جلدی سے جو سمجھ میں آئے بول ڈالتے ہیں بلکہ بعض دفعہ تو سُوال ہم سے پوچھا بھی نہیں جاتا ، سُوال پوچھنے والا کسی اَوْر سے پوچھ رہا ہوتا ہے ، ہمارے کانوں میں بس آواز پڑ جاتی ہے اور ہم مُفْت میں مُفتی بَن کر جواب شُروع کر دیتے ہیں۔ * سُوال پوچھنے والے کا مقصد کیا ہے؟ * سُوال کا دُرست مطلب کیا ہے؟ * قرآنِ کریم میں اُس سُوال کے بارے میں کیا اَحْکام ہیں؟ * اَحادیث میں اس بارے میں کیا اِرشاد ہوا؟ * عُلَمائے کرام نے اس بارے میں کیا فرمایا؟ * پھر میں اگر جواب دینے ہی لگا ہوں تو میرے دِل کی حالت کیا ہے؟ * کہیں یہ جواب دینے میں نَفْس کی خواہش تو شامِل نہیں؟ * جواب دینے میں میری نیت رِضائے اِلٰہی کی ہے یا نہیں؟ * کہیں میں رِیاکاری کا شکار تو نہیں ہو رہا؟ * کہیں میں خُود پسندی کا شِکار تو نہیں ہو رہا؟ یُوں صِرْف ایک سُوال کا جواب دینے میں ہزار پہلو ہیں ، جن کے متعلق غورکرنا ضروری ہوتا ہے لیکن لوگ اِحتیاط نہیں کرتے۔ سوشل میڈیا پر تبصرے کر رہے ہوتے ہیں ، اَنْ پڑھ لوگ قرآن و حدیث کی غلط سلط وضاحتیں کر رہے ہوتے ہیں ، قرآنِ کریم اُوپر سے دیکھ کر دُرُست پڑھنا نہیں آتا اور دِینی موضُوعات پر مُنَاظَرے ہو رہے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ جو ایسی بےباکی کا شِکار ہیں ،