Book Name:Ghous-e-Pak Ki Naseehatain

اے عاشقانِ رسول! اے عاشقانِ صحابۂ و اہلبیت! اے عاشقانِ اولیا! دیکھا آپ نے حُضُور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کیسے غریب نواز ، غریبوں سے ہمدردی کرنے والے ، اپنے نانا جان ، رحمتِ دوجہان صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کی دُکھیاری اُمّت کا کیسا دَرْد رکھنے والے تھے۔ یقیناً آپ چاہتے تو کسی امیر زادے کے ہاں قیام فرماتے ، آپ کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ رہائش کا انتظام کر دیا جاتا مگر آپ نے ایک غریب کے ہاں قیام کرنا پسند فرمایا اور سُبْحٰنَ اللہ ! شان دیکھئے...! شہنشاہِ بغداد حضور غوثِ پاک رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے گاؤں کے سب سے غریب شخص کے گھر صِرْف ایک رات بسر فرمائی اور اسے گاؤں کا سب سے امیر ترین آدمی بنا دیا۔

کِھلا دے جو مرجھائی کلیاں دلوں کی         چلا کوئی ایسی ہوا غوثِ اعظم

                                                    دِکھا دے ذرا مہرِ رُخ کی تجلی          کہ چھائی ہے غم کی گھٹا غوثِ اعظم

اے قادریو! اے غوثِ پاک کی محبت کا دَم بھرنے والو! غور فرمائیے! جب ہمارے پِیر ، پِیروں کے پِیر حضور غوثِ پاک رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ غریبوں کے ساتھ اتنی محبت فرماتے ہیں ، غریبوں کی ایسی دِل جُوئی فرماتے ہیں تو کیا  ہم قادری کہلانے والے ، غوثِ پاک  اور دیگر اولیا کی محبت کادم بھرنے والے غریبوں کی مدد کے لئے جیب سے چند روپے نہیں نکال سکتے؟ کیا ہم غریبوں کے ساتھ اپنے منہ کا نوالہ نہیں بانٹ سکتے؟ کیا ہم بھوکوں کو کھانا نہیں کھلا سکتے؟ کیا ہم یتیموں کے سر پر ہاتھ بھی نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم غریبوں کے ساتھ مسکرا کر بات بھی نہیں کر سکتے؟ اُن کی عزّتِ نفس کا خیال  نہیں رکھ سکتے؟ کیا ہم غریبوں کے حق میں دُعا بھی نہیں کر سکتے؟ کر سکتے ہیں ، یقیناً کر سکتے ہیں مگر افسوس! ہم ایسا نہیں کرتے ، آہ! آج ہمارے معاشرے میں غریب بھوک سے بلکتے ہیں ، کوئی اُن کا پُرسانِ حال نہیں ہوتا ،